توشہ خانہ کیس: ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں،ہائیکورٹ میں کچھ نہ ہوا تو فیصلہ دیں گے، سپریم کورٹ

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم ابھی مداخلت نہیں کریں گے۔ پہلے ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس کی وکیل الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے موقع دیئے گئے ہیں؟ تین دفعہ کیس کال کر کے ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو تو سنا ہی نہیں گیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی کی جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف تین درخواستیں دائر کیں ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے۔6 اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کیلئے سپیکر اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجا۔اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا۔سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک رکن اسمبلی دوسرے رکن کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے؟ ایک رکن اسمبلی نے دوسرے ممبر کے خلاف کس قانون کے تحت اسپیکر کو درخواست دی؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سیشن عدالت میں کیا آپ کا موقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟جس پر لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا موقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں۔آپ کے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کاروائی مجسٹریٹ کرکے ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا۔قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے ؟۔وکیل لطیف کھوسہ نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں ؟قتل ہو نہ تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔۔جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں۔لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانی ہونگی۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر بات پر اسلام آباد ہائیکورٹ پر اعتراض اٹھارہے ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ اعتراض نہ کریں تو پھر کیا کریں ؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہہائیکورٹ نے فیصلہ کردیا تو آپ اپیل کردیں، عدالت کا ہر فیصلہ پبلک ڈومین میں جاتا ہے۔عدالت کا فیصلہ ڈسکس ہونا چاہیے ججز نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن نے مقدمہ درج کرانے کی اتھارٹی نہیں دی تھی۔ یہ اختیار سیکریٹری الیکشن کمیشن نے دیا جو کہ اس کا مجاز ہی نہیں تھا۔ لطیف کھوسہ نےجج ہمایوں دلاور کو بھی کیس سننے کیلئے نااہل قرار دیا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ تمام نکات ہائی کورٹ میں اٹھائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ پر بار بار اعتراض اٹھانے پر جسٹس جمال مندوخیل نے لطیف کھوسہ کی سرزنش کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے وکیل پر برہم ہو گئے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو انصاف کے مواقع دستیاب ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی یہاں کہیں موجود ہے؟مجھے تو ملزم یہاں نظر نہیں آرہا۔کیا ملزم عدالت میں ہے یا جیل میں قید ہے؟ایسا مزاق نہ کریں،چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے موقع دیئے گئے ہیں ؟تین دفعہ کیس کال کر کے ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو تو سنا ہی نہیں گیا۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ نے فیصلہ کردیا تو آپ اپیل کردیں، عدالت کا ہر فیصلہ پبلک ڈومین میں جاتا ہے۔عدالت کا فیصلہ ڈسکس ہونا چاہیے ججز نہیں۔ اگر کوئی فیصلہ غلط ہے اس میں مداخلت کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔لیکن ہم آج مداخلت نہیں کریں گے۔کل ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے۔ عدالت نےسماعت کل تک ملتوی کردی۔

More Stories
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس: کب کیا ہوا؟