باجوڑ حملہ ریاستی اداروں کی بڑی ناکامی، 26 انٹیلیجنس ایجنسیاں کہاں غائب تھیں، مولانا فضل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ باجوڑ جیسے واقعات کے ذریعے اُن کی جماعت کا عوام سے رابطہ توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس نوعیت کے اقدامات سے نہ تو پہلے ان کی پارٹی کا راستہ روکا جا سکا ہے اور نہ ہی یہ آج ممکن ہو گا۔

جے یو آئی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ باجوڑ حملہ ایک بڑی انٹیلیجنس ناکامی ہے۔ کیا یہ مجھے اعتماد دلا سکتے ہیں کہ ریاست میری جان کی حفاظت کرسکتی ہے یا نہیں؟ یا ریاست صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرے گی اور میری جان ومال کی حفاظت نہیں کریں گی۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ مجھے شکایت ہے کہ میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے، پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کیا ہمارے ریاستی ادارے صرف اس بات کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ کسی غریب مولوی کو تھانے میں لے آئیں اور ان پر الزمات لگائیں کہ تمہارے پاس کسی نے کھانا کھایا یا چائے پی۔ پاکستان میں 26 انٹیلیجنس کے ادارے ہیں، مگر وہ غائب کہاں ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ اس نوعیت کے حربوں سے ان کی جماعت کو اپنی فکر اور نظریے سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔باجوڑ حملے کے تناظر میں ان کی جماعت پہلے قبائلی زعما کا جرگہ اور پھر جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ موجودہ صورتحال پر غور کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن پر اتوار کے روز ہونے پر خودکش حملے میں 45 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے وقت مولانا فضل الرحمان دبئی میں موجود تھے تاہم یہ اطلاع ملنے کے بعد وہ اپنا دورہ مختصر کر کے پاکستان واپس پہنچے تھے۔ افغانستان میں برسراقتدار طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ابتدائی طور پر داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم حکام کی جانب سے اس بابت ابھی تک کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

More Stories
آئی ایم ایف سے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط موصول ہوگئی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار