اسلام آباد : نومئی واقعات میں ملوث ملزمان کو اپیل کا حق ملے گا یا نہیں؟۔حکومت نے غور کےلئے سپریم کورٹ سے مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ اس دور کا ضیا الحق دور سے موازنہ نہ کیا جائے۔ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ زیادہ تعداد ہونے کے باوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو ٹرائل کیلئے منتخب کیا گیا۔ بادی النظرمیں گرفتار 102 ملزمان میں سے کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کلبھوشن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا۔۔کس کا نہیں؟۔اس کا انتخاب کیسے کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مستقبل میں 9 مئی جیسے واقعات کا تدارک کرنا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں۔ کبھی جارہے ہیں۔ آپ کی دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔ 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا۔۔مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارچ کیا جاتا ہے۔ الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارچ ختم کردیا جاتا ہے۔3 ماہ سے زیادہ کی سزا پر 42 دن کے اندر کورٹ آف اپیل میں اپیل کرسکتے ہیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ عدالت کو ابھی تک حکومت کی جانب سے ملزمان کی فہرست اور تفصیل نہیں دی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔جواد ایس خواجہ کے وکیل نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کی۔جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریلیکس کریں ابھی کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا۔ لطیف کھوسہ نے ضیا الحق کے مارشل لا کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات کو مارشل لا کے ساتھ مت ملائیں۔مارشل لا جیسے حالات ہوئے تو ہم مداخلت کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے پرغور کیلئے ایک ماہ کی مہلت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ تاریخ کا تعین مشاورت کے بعد کر دیں گے۔ٹرائل میں پیشرفت پر بھی عدالت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی موجود ہے۔ یقین دہانی کیخلاف کچھ بھی ہوا تو متعلقہ مجاز شخص کو طلب کریں گے۔حکومت چلی بھی گئی تو عدالت حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کر کے جواب لے گی۔عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کر دی۔