توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس: عمران خان کےخلاف کیس قابل سماعت قرار، شہادتیں طلب

اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دے دیا ہے۔ ایڈیشل سیشن جج ہمایوں دلاور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست خارج کردی۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کا حق سماعت ختم کردیا تھا۔عدالت نے صرف الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل پر فیصلہ سنایا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی درخواست پر سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کرپٹ پریکٹس پر الیکشن ایکٹ کے تحت کارروائی کا کہا۔ یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیار دیا گیا تھا۔ قانونی کارروائی کے آغاز کرنے کا اختیار دینا الیکشن کمیشن کے فیصلے میں موجود ہے ۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 190 کے تحت قانونی کارروائی کا کہا۔ الیکشن کمیشن کی شکایت کے ساتھ اتھارٹی لیٹر بھی موجود ہے۔ اتھارٹی لیٹر میں ملزم کا نام لیکر قانونی کارروائی کا کہاگیا ۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار پورے الیکشن کمیشن نے دیا ۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 190 کمپلینٹ فائل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ سیکشن 190 کسی بھی شخص یا کمیشن کو کرپٹ پریکٹس پر کمپلینٹ فائل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ شکایت کنندہ کسی بینک کا مینیجر نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ہے۔۔ شکایت کنندہ ایک عام شہری بھی نہیں ہے۔ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی جانب سے جو آتھرائزیشن لیٹر دیا گیا اس میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ 21 اکتوبر 2022 کے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس پر کارروائی کا کہا۔ شکایت کنندہ نے حلفیہ کہا کہ اسے الیکشن کمیشن نے شکایت کیلئے آتھرائزیشن دی ۔۔ مان بھی لیا جائے کہ آتھرائزیشن کے بغیر شکایت فائل ہوئی تو کیا عدالت اس شکایت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی یا پھر عدالت اتھرائزیشن کو درست کرنے کا کہے گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ایف آئی آر کٹوانی ہو تو کیا کوئی آفیسر کٹوائے گا یا پورا الیکشن کمیشن جا کر کٹوائے گا۔ الیکشن کمیشن اپنی قانونی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے اس کیس کی پیروی کررہا ہے۔ کمپلینٹ فائل کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی آتھرائزیشن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کرپٹ پریکٹس کے خلاف شکایت الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی ہے۔ کوئی بھی ضمنی قانون سازی الیکشن کمیشن کو اس کی آئینی ذمہ داری سے روک نہیں سکتی۔ جرم کبھی مرتا نہیں اور یہ ایک ذمہ داری ہوتا ہے۔ جھوٹا ڈیکلریشن ایک جرم ہے۔ کیا جرم کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہے۔ کسی بھی قانون کے تحت جرم کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں۔ ملزم کا کہنا ہے کمپلینٹ وقت گزرنے کے بعد فائل کی گئی۔ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ ٹائم بارڈ نہیں ہے۔ ممبر قومی اسمبلی کو اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں ڈکلیئر کرنا ہوتے ہیں ۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ اس کا مقصد کرپٹ پریکٹسز سے روکنا ہوتا ہے ۔۔ الیکشن کمیشن کو سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس بھیجا، ریفرنس میں بات سامنے آئی کہ توشہ خانہ سے لیئے جانے والے تحائف کو اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کی شکایت سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کی بنیاد پر ہے۔ الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی سکروٹنی کرنی ہوتی ہے ۔ سکروٹنی میں اگر اثاثے غلط ثابت ہوں تو صرف 120 دنوں میں الیکشن کمیشن شکایت فائل کر سکتا ہے تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کیس سپیکر کے ریفرنس کی بنیاد پر ہے۔ الیکشن کمیشن کی شکایت وسل بلوئنگ کی بنیاد پر ہے۔ توشہ خانہ کے تحائف کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے چھپایا گیا ۔  توشہ خانہ کے ریکارڈ کیلئے شہریوں کی جانب سے ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی گئیں ۔ توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات سامنے آگئیں ہیں تو کہا جارہا ہے کہ 120 دن کے اندر شکایت ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر علی گوہر اس کیس میں پہلے دن سے پیش ہورہے ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ یہ عدالت میں ملزم کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ خواجہ حارث کریں گے یہ کیس کو طول دینے کی سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ملزم کا حق ہوتا ہے کہ کونسا وکیل اس کی نمائندگی کرے۔ عدالت ہمیں دلائل کیلئے پیر تک کا وقت دے۔ ہمارا حق ہے کہ عدالت ہمیں سنے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق بھی مزید چار دن کا وقت ہے۔ عدالت نے کہا کہ خواجہ حارث بڑے وکیل ہیں انھیں انا چاہیئے تھا۔ اس کیس پر پورے پاکستان کی نظر ہے۔ جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عدالت لوگوں کی نظروں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے فیصلہ کرے ۔ خواجہ حارث لاہور میں ہیں پیر تک کا وقت دے دیا جائے۔

بعد ازاں ایڈیشل سیشن جج ہمایوں دلاور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست خارج کردی،چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی ،ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو سات روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کا حق سماعت ختم کردیا تھا،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل نہیں دئیے ، عدالت نے صرف الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل پر فیصلہ سنایا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل تین روز سے دلائل کے لیے وقت مانگ رہے تھے۔

More Stories
فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟