دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں اور ہوا میں باتیں کی جارہی ہیں،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا،ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے، ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون ٹو ڈی ون کا استعمال کیا جارہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں اور ہوا میں باتیں کی جارہی ہیں، ٹو ڈی ون کے تحت کونسے جرائم آتے ہیں عدالت کی معاونت کریں، اگر کچھ ہوا تو مجھے فوری آگاہ کیا جائے، میں آئندہ ہفتے سے دستیاب ہوں گا، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ فوری کسی کا ٹرائل نہیں ہورہا ،ہم اسے مثبت دیکھ رہے ہیں، اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا فوجی عدالتوں  میں  ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ دکھائیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بنچ نے سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست داٸر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کی درخواست کو نمبر لگ گیاہے؟ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آٸی ، اچھے دلاٸل کو ویلکم کیا جائے گا،جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے، چیٸرمین پی ٹی آٸی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔وکیل تحریک انصاف نے عدالت کو اپنے دلائل میں بتایا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے، جس پر جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں، جسٹس یخیی آفریدی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔

جسٹس یخیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2ڈی ون لگائی گئی ہے یا 2 ڈی 2 ؟  کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک سیکشن 2ڈی 2 لگائی گئی ہے،سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے، آج کے دن تک 2 ڈی ٹو کا ہی اطلاع ہوا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اف بی ایل ای اور ڈسٹرکٹ بار کیس کے فیصلے سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ آپلائی کرتا ہے، کیسے تعین ہو گا ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہو گا یا ملٹری کورٹس میں ؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں،ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق ،الگ وجوہات تھیں،جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی این کیس کہتا ہے کہ کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہوگا، جس پر ٹرائل ہوگا، وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں بات کر رہے ہیں ٹو ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے، جسٹس منیر اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہ ہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا۔آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل سٹرکچرکی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں ، یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا ،کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی،ایف آئی آر میں کہیں بھی افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا،آرمی سپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے،اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا، عزیر بھنڈاری نے سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ افوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ  کر دیا گیا۔وقفہ سماعت کے بعد جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ جی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے،ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کازکر ہی نہیں ہے،ایکٹ میں ترمیم کےذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں،2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتاہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے،سقم قانون میں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے، عزیر بھنڈاری نے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام لگاتھا مگر ان جو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا،آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے ،اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فایدہ مند ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہے نہیں تھا ، ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے ، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے،اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیئے ،صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی،سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہو گا ملزم کون ہے ،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار ذمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کروا دیئے۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس یخیی آفریدی نے کہا کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کردی ہیں،نو مئی کا واقعہ جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کا عمل شروع ہوا،ساری کاروائی کابیشتر حصہ رولز میں موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کئے گئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کا طریقہ اور حقوق سے متعلق تفصیل بتاونگا،اٹارنی جنرل نے سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے،اہلخانہ کی زیرحراست افرادسے ہفتہ کی بنیاد پر ملاقات ہوسکتی ہے،اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دیکر ملاقات کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جیلوں کادورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہر ملزم کو بات کرنے کےلئے کچھ منٹس دئیے جاتے ہیں،آپ نے خود کہا ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے، جسٹس یخیی آفریدی نے کہا کہ ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سادہ سوال ہے کیوں حراست میں موجود لوگوں کی فہرست بپلک نہیں کر دیتے،جسٹس یخیی آفریدی نے کہا کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے،عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا،صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں ڈاکٹرز موجود ہیں،صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی،ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں،عمران ریاض لاپتہ ہیں، کیا عمران ریاض آپ کی تحویل میں نہیں ہیں؟ عمران ریاض کو تلاش کریں اور بازیاب کریں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران ریاض ہماری تحویل میں نہیں ہے،وفاقی حکومت عمران ریاض کی بازیابی کیلئے مکمل تعاون کررہی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے فون پر خط موصول ہوا جس میں مجھ پر الزام تھا کہ میں عمران ریاض کی خاطر کچھ نہیں کر رہا،اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، ہم اب عید کے بعد ملیں گے، عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گے کہ کیس کی سماعت کب کو گی، فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق فی الحال حکم امتناع جاری نہیں کررہے ہیں، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حکم کر دیں کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام افراد صرف تحویل میں ہیں تحقیقات ہو رہی ہیں،کسی کو سزائے موت سنائی نہیں جا رہی، ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا، نہیں معلوم کہ اگلے دو ہفتے تک تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کم از کم اٹارنی جنرل کی اسٹیٹمنٹ کو حکمنامے کا حصہ بنایا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی تحویل میں افراد کو وکیل کا حق دیا جائے گا، اگر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے اگلے ہفتے میں آگاہ کریں،ہر ایک کا خیال رکھیں، بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کردی ۔

More Stories
ڈربن ملاقات، ایک مثبت پیشرفت، ہم کرکٹ کو سیاست کے ساتھ نہیں جوڑتے