سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کے اعتراض پرجسٹس منصور علی شاہ بینچ سے الگ ہوگئے جس کے نتیجے میں بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے 11 بجے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوتے ہی وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے آگاہ کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کا رشتہ دار ہے اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے دن ہی کہا تھا کہ کسی کوکوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔چیف جسٹس نے کارروائی کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک پوری سیریز ہے جس میں پینچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، آپ ایک مرتبی پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔
بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور شاہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، جس کے جواب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میں اپنا کنڈکٹ جانتا ہوں کوئی ایک انگلی بھی اٹھا لے تو میں دوبارہ اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہاکہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبا سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا کیس ہارنے لگو تو بنچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے لیے 7 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔
آج شہری جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا آج دلائل کا آغاز کریں گے جبکہ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے بھی دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔
گزشتہ سماعت میں سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم آج عدالت کو اپنے دلائل دیں گے۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکیل بھی آج مقدمے میں دلائل دیں گے۔
سپریم کوٹ میں ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان نے 9 مئی کے بعد گرفتار افراد کے اعداد و شمار عدالت میں پیش کیے تھے، اٹارنی جنرل کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، جن میں کوئی خاتون، کم عمر افراد، صحافی یا وکیل شامل نہیں ہیں۔
پنجاب حکومت نے بھی ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے گرفتار افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی، عدالت عظمٰی نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔