پاکستان نظام تعلیم پر جاری محکمہ تعلیم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2021 اور 2022 کے درمیان اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے، جس کے اعداد و شمار کے مطابق حیرت انگیز طور پر 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جبکہ صرف پنجاب میں ان کی تعداد 1 کروڑ 17 لاکھ ہے۔
سرکاری سطح پر تیار کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے پہلا نمبر پنجاب کا ہے، سندھ میں 76 لاکھ 30 ہزار بچے اسکول نہیں جا رہے۔ بچوں کا اسکول نہ جا پانا ایک بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ 30 ہزار بچے اسکول نہیں جا پا رہے، بلوچستان میں 31 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، وفاقی دارالحکومت میں 8 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔ 39 فیصد بچے مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا رہے۔ بلوچستان کی نسبت خیبرپختونخوا کا تعلیمی میعار بہتر ہے۔
رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں 30 فیصد بچے اسکول نہیں جا رہے، 2016 اور 2017 میں 44 فیصد بچے اسکولوں سے باہر تھے، 2021 اور 2022 میں 39 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں، انٹر کی سطح پر دیکھا جائے تو 60 فیصد نوجوان تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔پرائمری سطح پر 30 فیصد، مڈل میں 36 فیصد اور میٹرک میں 44 فیصد بچے اسکول نہیں جا رہے۔
سال 2023 کے دوران اقوام متحدہ نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان میں اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، اور اس معاملے سنگین چیلنج قرار دیا تھا۔ اگرچہ سال 2021 اور 2022 میں اسکولوں میں بچوں کا اندراج اور برقرار رکھنے کی شرح میں بہتری آئی ہے، لیکن پاکستان میں تعلیمی اشاریوں کو بہتر بنانے میں پیش رفت سست رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق 5-16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 22 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ فی الحال، پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دنیا میں دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے، جو اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 5 سے 9 سال کی عمر کے گروپ میں، 50 لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں اور پرائمری اسکول کی عمر کے بعد یہ تعداد دوگنی ہوجاتی ہے۔ 10-14 سال کی عمر کے 1 کروڑ 14 لاکھ نوجوان رسمی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ سندھ میں، 52 فیصد غریب ترین بچے (58 فیصد لڑکیاں) اسکولوں سے باہر ہیں، اور بلوچستان میں، 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جا پاتیں۔پرائمری سطح پر تقریباً 1 کروڑ بچے اور 86 لاکھ بچیاں شامل ہیں جن میں سے ثانوی سطح پر 36 لاکھ لڑکے اور 28 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تعلیمی نظام میں ناکافی فنانسنگ، پالیسی کے وعدوں کا محدود نفاذ اور منصفانہ نفاذ میں چیلنجز سب سے زیادہ پسماندہ افراد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں حوصلہ افزا اضافہ دیکھا گیا ہے حالانکہ کل جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، لیکن یہ ابھی بھی 4 فیصد ہدف سے بہت کم ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان کو معیاری ابتدائی تعلیم پری پرائمری تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوں، جس کی وجہ سے بچے کو آگے پرائمری تعلیم حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔