ارشد شریف کیس: ریاست نے سپریم کورٹ کے سامنے جرم تسلیم کر لیا، جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہید ارشد شریف کے کیسز کی تفصیلات فراہمی کے کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، ارشد شریف شہید کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیے اور ملک بھی میں صحافیوں پر درج مقدمات کی تفصیلات طلب کر لیں۔

ارشد شریف شہید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل خلاف 16 مقدمات درج کیے گئے، ان کی تفصیلات کا پتہ نہیں چلا لیکن صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ مقدمات درج ہیں۔

عدالت نے ارشد شریف کی درخواست شہادت کے باعث غیر موثر قرار دے دی، عدالت نے سمیع ابراہیم اور معید پیرزادہ کیخلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات بھی 14 فروری کو طلب کر لیں۔ سمیع ابراہیم اور ڈاکٹر معید پیر زادہ کے خلاف ایک ہی الزام پر درج کیے گئے مقدمات کی تفصیلات طلب کی گئیں۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ حکومت وضاحت دے ایک ایشو پر متعدد ایف آئی آر کیسے درج ہوئیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایک اینکر یا صحافی انٹرویو دیتا ہے تو اس کی بنیاد پر بہت سے مقدمات درج ہو جاتے ہیں، کیا 25 کروڑ عوام نے انٹرویو کے الفاظ سنے تو 25 کروڑ مقدمات درج ہوں گے؟

انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایک گوادر ایک سبی ایک حیدرآباد میں مقدمہ درج کروائے گا؟ اس طرح ملک بھر میں مقدمات کا اندراج یہ مذاق ہے یہ اختیارات سے تجاوز ہے، جو پہلی ایف آئی آر کسی ایکٹ پر ہوگی اس کی ہی پیروی ہو گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ کام تو بھیڑ بکریوں والا ہی ہے ایسے ہی عوام کو ٹریٹ کیا جاتا ہے، ایک ہی انٹرویو پر کثیر مقدمات کیسے درج ہوں گے یہی کرنا تھا تو پہلے شخصی آزادی دینی ہی نہیں تھیں، اسٹیٹ کو ایسے کام کرنے ہی نہیں چاہیے کہ اس پر لوگ ٹویٹ کریں یا بولیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے معلومات دینی ہیں کتنے مقدمات درج ہوئیں اسٹیٹس کیا ہے؟ ایک انٹرویو پر بہت سے مقدمات کیسے درج ہو سکتے ہیں؟ یہ ابھی بھی اس دور میں کھڑے ہیں جہاں لوگوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے، مقدمات درج ہونے پر مجھے یہ سمجھ نہیں آتی تربت پسنی کے لوگوں کو سب پتہ ہوتا ہے یہاں کے لوگوں کو نہیں پتہ ہوتا۔

’اسٹیٹ کے اداروں کو تو قانون کے مطابق چلنا ہے، یہ کہنا بڑا آسان ہے انڈیا اسرائیل فنڈ لے رہا ہے یہ کہانیاں سب سن چکے ہیں، کہنا بڑا آسان ہے لیکن ان عورتوں بچوں کو دیکھیں جن کے پیارے 10،10 سال سے لاپتہ ہیں وہ ان کے لیے بیٹھے ہیں۔ اس سے بڑی بات کیا ہے کہ اسٹیٹ نے سپریم کورٹ کے سامنے جرم تسلیم کرلیا ہے۔‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں اسٹیٹ کے ادارے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، عدالتوں نے اپنا کام کرکے دیکھانا ہے انہوں نے اپنے فیصلے کرنے ہیں، ریاست کو ایسے کام کرنے ہی نہیں چاہئیں جس کے بعد ایسے ٹویٹس ہوں اور نتائج آئیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ یہ ابھی بھی اسی دور میں کھڑے ہیں کہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لے جا کر مقدمات درج کرائیں، تربت، پسنی میں ہی لوگ باخبر ہیں، یہاں اسلام آباد میں سب ہی بے خبر ہیں، اسکا دوسرا پہلو بھی ہے کہ وہاں پر ریاست تحفظ نہیں دے سکتی۔

More Stories
اقلیتیں ملک کا قیمتی اثاثہ، ان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے، نوازشریف