راولپنڈی کی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔ شاہ محمود قریشی کیخلاف 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ڈیوٹی مجسٹریٹ سید جہانگیر علی نے کی۔پراسیکیوشن نے شاہ محمود قریشی کا 30 روز کا ریمانڈ مانگ لیا۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک اور بیٹی مہر بانو راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے۔ بیرسٹر تیمور ملک نے مہر بانو کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون سا ان کیمرہ ٹرائل ہے جہاں میڈیا کو روکا جا رہا ہے، میڈیا پر پابندی کے حوالے سے جج صاحب سے بات کریں گے، میڈیا کو کوریج کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مہر بانو نے کہا کہ فیصلہ کرنا ہو گا ہم کس سمت جا رہے ہیں، ابھی معلوم ہوا میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، میڈیا کو کوریج سے روکنا افسوس ناک عمل ہے۔
سماعت کے آغاز میں شاہ محمود قریشی نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بلند کر کے جج کو دکھائے۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ آپ قرآن پاک منگوا لیں میں حلف دیتا ہوں، 9 مئی کو میں راولپنڈی پنجاب میں نہیں، کراچی میں تھا، پیمرا سے ریکارڈ منگوا لیں میں کراچی میں موجود تھا، میری بیوی آغا خان اسپتال میں تھیں جس کے پاس میں موجود تھا، مجھے سپریم کورٹ کے تین ججز نے رہا کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مجھے 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ رات مجھے گرفتار کیا جاتا ہے صبح آکر کہا جاتا ہے آپ کو رہا کر رہے ہیں، میں نے کہا کیا وجہ ہے جس پر کہا جاتا ہے کہ کیس میں سقم ہے، مجھے ایک حکمنامے کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے پھر آرڈر واپس لیا جاتا ہے، مجھے 26 دسمبر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا پھر ہاتھ سے تاریخ کاٹ کر 27 لکھا گیا، ابھی جیل کی حدود میں تھا کہ پنجاب پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی۔
سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں پانچ بار ممبر اسمبلی رہا، ایس ایچ او نے مجھے مکا مارا اور لات ماری، ایس ایچ او اشفاق نے مجھ پر تشدد کیا، مجھے سینے میں تکلیف ہوئی گھنٹوں تک ایس پی سے درخواست کی کہ اسپتال لے جاؤ، میں نے منتیں کیں مجھے سینے میں تکلیف ہے لیکن ڈاکٹر کے پاس نہ لے جایا گیا، ایک ڈاکٹر کو بلایا جس کے پاس محض بلڈ پریشر دیکھنے کی مشین تھی۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ مجھ سے بیان لینا چاہا لیکن میں نے وکلاء کے سامنے بیان دینے کا فیصلہ کیا، مجھے سخت ترین سردی میں رکھا گیا، رات نیند تک نہ آئی، مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا اور تشدد کیا گیا، میں نے پاکستان کی نمائندگی کی ہر جگہ پاکستان کی صفائیاں دیں، میرے ساتھ اب یہ سلوک کیا جا رہا ہے اور میں کئی ماہ سے جیل میں ہوں، کیا یہ انصاف ہے مجھ پر تشدد ہوا، اوپر اللّٰہ نیچے آپ کا قلم ہے۔
شاہ محمود قریشی نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تقریر میں کہا قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا، میں نے کہا کسی کی دہلیز عبور نہیں کرنی، میں نے بیان میں کہا تھا کہ فیملیز کے ہمراہ پُرامن احتجاج کریں، ایک بہت ذمے دار آدمی نے مجھے کہا کہ چھانٹ کر دیکھا آپ صاف ہیں، آپ کو اکیلے میں بتا سکتا ہوں کس طاقتور ترین شخص نے کہا آپ کا 9 مئی میں کردار نہیں، وہ شخص اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہیں جنہوں نے کہا آپ 9 مئی میں ملوث نہیں، میرا پورا بیان سامنے لایا جائے جو یہاں ہے۔
تیمور ملک نے جج سے شاہ محمود قریشی کی ہتھکڑیاں کھولنے کی درخواست کی جس کے بعد ڈیوٹی مجسٹریٹ سید جہانگیر علی نے شاہ محمود قریشی کی ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دے دیا۔ شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کو کوئی پولیس والا کک نہیں مار سکتا نہ ہی تشدد کر سکتا ہے۔
عظیم پاکستانیوں آج آپ کو پاکستان کے لیے باہر نکلنا ہو گا، عدالت میں شاہ محمود کے ویڈیو بیان کا ٹرانسکرپٹ پڑھا گیا، پاکستانیوں اپنے بچوں اور فیملی کے ہمراہ نکلیں، نکلیں تاکہ بہتر مستقبل کی بنیاد بنائی جا سکے۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسی کیس میں ضمانت دے دی تھی، شاہ محمود کے تشدد کے بیان کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اسے قلمبند کیا جائے، جب تقریر مل گئی اور ڈیٹا سب مل گیا اب میرے موکل کو کیوں گرفتار رکھا جا رہا ہے، میرے موکل کو بنیادی ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا گیا تھا، میرے موکل کا مقدمے میں نام نہیں ہے، سپلیمنٹری کیس میں سزا نہیں ہوتی ڈسچارج کیا جاتا ہے، 11 مئی کو میرے موکل کو 3 ایم پی او کے تحت گلگت بلتستان ہاؤس سے گرفتار کیا گیا، ایم پی او کے تحت گرفتاری کے حکم کو ختم کر کے شاہ محمود کو رہا کیا گیا، جی ایچ کیو کیس میں 12 ملزمان کی ضمانت منظور ہو چکی، عدالت میں پیش تقریر 16 ستمبر کی ہے، اس کا 9 مئی سے کیسے تعلق ہو سکتا ہے، یہ کیس جس نوعیت کا ہے اسے ڈسچارج کیا جائے۔
پراسیکیوٹر اکرم امین نے کہا کہ یہ نو مئی کی ویڈیوز ہیں جو 16 ستمبر کو ہمیں موصول ہوئیں، یہ تقریر ہے اس کے منفی اور مثبت پہلو ہم دیکھیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی پیشی کے موقع پر صحافیوں کو جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔اس حوالے سے راولپنڈی پولیس کا کہنا ہے کہ افسران سے بات کریں، پریس کا داخلہ منع ہے، شاہ محمود قریشی کیس کی کوریج پر پابندی ہے۔