سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔عدالتی فیصلے میں قرار دیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین سے متصادم ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔

سپریم کورفٹ کے تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اکیاون صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس کے ساتھ جسٹس منیب اختر نےتیس صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی تحریر کیا

فیصلے کے مطابق ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ دو ہزار تئیس غیر آئینی ہے۔ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا ختیار ہی نہیں رکھتی۔ ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ کسی بھی قانون کو کالعدم قراردینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہے۔ قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔ریویو اف ججمنٹ ایکٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے۔ ایکٹ کو اسطرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔اس لئے عدالت ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کو کالعدم قرار دیدیا۔ عدالت نے ایکٹ کیخلاف درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔الیکشن کمیشن نے 23 مارچ 2023 کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کر دیے تھے جو 30 اپریل بروز کو شیڈول تھے، اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔

فیصلے کے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔پنجاب انتخابات کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ پیش کر کے کیس سننے والے بینچ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور نئے قانون کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی کی اپیلوں کو لارجر بینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کی آخری سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پانچ مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکر لیا گیا تھا۔

More Stories
نومنتخب پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر: چیف جسٹس اپنی گاڑیاں واپس نہ کریں بلکہ ہمیں انصاف دلوا دی