اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف توشہ خانہ کیس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا۔
سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت دائر ہونے والے ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ بددیانت ہیں، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
ریفرنس موصول ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چار اگست 2022 کو الیکشن کمیشن کو یہ ریفرنس بھیجا جس میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کی سزا کی استدعا کی گئی تھی۔الیکشن کمیشن نے ریفرنس پر کارروائی کی اور 21 اکتوبر 2022 کو دیئے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ سابق وزیراعظم نے تحائف کے بارے میں جھوٹے بیانات اور بے بنیاد اعلانات کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کے آغاز کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی ضلعی کورٹ میں اس ضمن میں درخواست دائر کی جس میں سابق وزیراعظم کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کرنے کی استدعا کی گئی۔
سیشنز عدالت کے جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں اس کے بعد سے اس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا اور رواں برس 10 مئی کو عمران خان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ یہ وہ دن تھا جب عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں زیر حراست تھے۔سیشنز عدالت کی اس کارروائی کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے سیشنز کورٹ کو فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی معطل کرتے ہوئے فریقین کو دوبارہ سننے اور سات روز میں فیصلہ دینے کا حکم دیا تھا۔
عمران خان کے وکلاء اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ بھی جا چکے ہیں، تاہم سپریم کورٹ نے یہ درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ عدالت ماتحت عدالتوں کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔سیشنز عدالت میں اس کیس کی سماعتوں میں رواں ہفتے دوبارہ تیزی آئی۔ رواں ہفتے ہی اس کیس میں عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جبکہ الیکشن کمیشن کے گواہان پہلے ہی اپنے اپنے بیانات ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
عدالت کی جانب سے عمران خان کو اپنے گواہان پیش کرنے کا حکم دیا گیا جس کے جواب میں چار گواہان کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تاہم عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کردہ گواہان کو کیس سے غیرمتعلقہ قرار دیتے ہوئے ان کے بیانات ریکارڈ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسی دوران عمران خان کے وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس کے قابلِ سماعت ہونے، اس کیس کو کسی دوسری عدالت میں بھیجنے اور اس مقدمے میں دفاع کے حق سے متعلق درخواستیں جمع کروائی تھیں۔گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنایا جائے گا۔اسی طرح سیشن کورٹ میں جج دلاور کی عدالت میں مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے۔
توشہ خانہ وفاقی کیبنٹ ڈویژن کا ذیلی محکمہ ہے جہاں حکمرانوں اور حکومتی اہلکاروں کو بیرونِ ملک دوروں پر دیے جانے والے تحائف رکھے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ کے قواعد کے مطابق تحائف اور ایسی دیگر اشیا جو ایک شخص کو ملتی ہیں، اسے کیبنٹ ڈویژن کو رپورٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔