توشہ خانہ کیس: یہ اب آئین کا کیس بن چکا ہے، سب سے بڑا بوجھ اس عدالت پر ہے،چیف جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کی۔ عمران خان نے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ہم نے گواہوں کو پیش کرنے کے لیے ایک دن کا وقت مانگا۔ ہمارا حقِ دفاع ہی ختم کر دیا گیا اور حتمی دلائل کا کہا گیا۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ روزانہ کی بنیاد پر کیس چلانے کی جلدی کیا ہے۔ جج صاحب نے کہا کہ اگر آج حتمی دلائل نہ دیے تو فیصلہ محفوظ کر لوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جج صاحب کرنا کیا چاہ رہے ہیں۔ جج کو معلوم ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر ایف آئی اے کی ایک رپورٹ آئی ہے۔ آپ کی کیس منتقلی کی درخواست جج کی مبینہ پوسٹوں کی وجہ سے تھی۔ میں نے ابھی ایف آئی اے رپورٹ دیکھی ہے، وہ بھی پریشان کن سی ہی ہے، یہ اچھی بات نہیں کہ غلط طور پر جج سے متعلق سب کچھ کہا گیا۔

وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہی کچھ نہیں ہے۔ وہ پوسٹ اب ڈیلیٹ ہو گئی ہوگی، ایف آئی اے نے کہا کہ اب موجود نہیں ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر پوسٹ ڈیلیٹ ہو بھی گئی ہو تو وہ ٹریش میں مل جانی چاہیے، یہ بات کوئی اچھی نہیں لگی، آپ لوگ سینئر وکیل ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایف آئی اے نے فیس بُک پوسٹوں کا فرانزک کیا ہے مگر خواجہ حارث نے کہا کہ اب دیکھنا یہی ہے کہ ایف آئی اے نے پوسٹوں کی موجودگی کو کس حد تک دیکھا۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہماری کیس منتقلی کی درخواست صرف تعصب کی بنیاد پر نہیں تھی۔ متعلقہ جج صاحب نے وکلا اور میرے متعلق بھی عجیب ریمارکس دیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب اگر یہ سب ججز سے متعلق کہا جائے گا تو وہ جواب میں کچھ تو کہے گا نا۔ بار عدلیہ کی نرسری ہے، میں بھی وہیں سے یہاں آیا ہوں۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے، اس میں خامیاں موجود ہیں۔میری خواہش ہے کہ کیسز کے ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چلائے جائیں مگر ملزم کو فیئر ٹرائل ضرور ملنا چاہیے۔عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ آج ہم یہاں ہیں اور جج صاحب ہمارا قانونی حق ختم کر کے فیصلہ محفوظ کر لیں گے؟

چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب فکر نہ کریں، میں اس بات کا خیال رکھوں گا۔ سابق وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ استدعا ہے کہ حق دفاع ختم کرنے کے خلاف ہماری درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم عدالتوں میں انصاف کے لیے آتے ہیں، ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس اب سی آر پی سی، الیکشن وغیرہ کا نہیں بلکہ آئین کا کیس بن چکا ہے۔ سب سے بڑا بوجھ اب اس عدالت پر ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ اس ہائیکورٹ نے ہماری درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے اور پہلی درخواست توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ہے۔ہماری دوسری درخواست دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہم نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ قانون کے مطابق مجسٹریٹ کی عدالت میں جانا تھا۔ہائیکورٹ نے ہماری کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل منظور کی۔ہائیکورٹ نے اگر کیس ریمانڈ بیک کیا تھا تو کسی اور جج کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے جج کو آپ کی درخواست دوبارہ سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا؟عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے کیس کو ایک دن وقفے کے بعد لگانے پر اتنا زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ وکلا جا کر پریس کانفرنسز کریں تو اس سے کیا اثر پڑے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی کیسز سے متعلق ایک بحث صبح یہاں ہوتی ہے اور ایک شام کو ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام میں جو بحث ہوتی ہے اس کا یہاں ہونے والی بحث سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔شام کو ہونے والی بحث سے عوامی رائے بنتی ہے، ان کے دیکھنے سننے والے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ اس عدالت کی سماعت میں تو زیادہ سے زیادہ پچاس سے ستر لوگ موجود ہوں گے۔عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پارلیمان کو سوچنا اور قوانین بنانے چاہییں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق پیمرا کا کوڈ اینڈ کنڈکٹ موجود ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ زیرسماعت مقدمات پر تبصرہ نہیں ہو گا۔کیا جج کو انصاف نہیں ملنا چاہیے؟سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت قانون کے مطابق درست طور پر دائر نہیں کی گئی۔یہ شکایت براہ راست سیشن عدالت میں دائر نہیں ہو سکتی تھی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اس نجی شکایت کو مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جا سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ مجسٹریٹ نے ابتدائی طور پر کرنا کیا ہوتا ہے؟ اس میں منطق کیا ہے؟ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ نے دستاویزات کی سکروٹنی کرنی ہوتی ہے۔میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ منطق کیا ہے لیکن قانون کے مطابق یہی طریقہ کار ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کر دیا۔انھوں نے کہا کہ جج پر فیس بُک پوسٹوں کے الزام سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’کیا رپورٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی؟کیا عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟کیا جج کو انصاف نہیں ملنا چاہیے؟

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ انھوں نے جج پر الزام لگانے سے پہلے فیس بُک پوسٹوں کا فرانزک کیوں نہیں کرایا۔ انھوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جج پر ایسے الزامات کے ساتھ بیان حلفی لگایا جاتا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت میں تین بجے تک کا وقفہ کر دیا۔

More Stories
وکیل قتل کیس: بینچ کے پاس عبوری ریلیف دینے کا اختیار نہیں،لارجر بینچ کیلئے چیف جسٹس سے استدعا کریں،سپریم کورٹ