اسلام آباد : سپریم کورٹ نے شہریوں کے فوجی عدالتوں کے کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کرے گی۔ ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے اغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ روز وکیل فیصل صدیقی کی درخواست میں تین نکات اٹھائے گئے تھے۔میں نے عدالت کو ملزمان اور ٹرائل کے حوالے کچھ یقین دہانیاں کروائیں تھیں۔ملزمان کو مرضی کا وکیل ،سہولیات کی فراہمی ،اہلخانہ سے ملاقات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔عدالت کو شواہد کی ریکارڈنگ ،فیصلے میں وجوہات کو شامل کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل وکیل لطیف کھوسہ ایک ملزم کی صورتحال بارے بتایا تھا۔میں نے ذاتی طور پر تمام ملزمان کے بارے میں معلومات حاصل کیں ہیں۔102 میں سے کوئی گرفتار ملزم کسی ابتر صورتحال میں نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جہاں پر دلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کردیں۔اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کرے گی۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے تاریخ سب دیکھ رہی ہے۔ ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر عدلیہ اور مقننہ کے دائرہ کار میں تفریق کیسے کریں گے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات الگ الگ ہونے کا نکتہ بھی اہم ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کورٹ مارشل کا دائرہ کار الگ کیا گیا ہے۔میں اس معاملے پر لیاقت حسین کیس سمیت مختلف فیصلے پڑھوں گا ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ فوجی عدالتیں قانون کے مطابق نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ عدالتیں قانون کے تحت بنی ہیں لیکن آئین کے آرٹیکل 175 سے متثنی ہیں۔میں عدالتی سوالات کا بھی جواب دوں گا۔کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں آتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ بات ہے تو درخواستوں گزاروں کا استدلال درست نہیں ہو جاتا ؟ درخواست گزار یہی کہہ رہے ہیں سویلین شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں۔بنیادی حقوق تو پھر آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں ہی دیکھیں گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوجی عدالتیں قانون کے مطابق قائم ہوتی ہیں۔فوجی عدالتوں کیخلاف آئین کے آرٹیکل 199(5) کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ محکمہ مال اور ایف بی آر سمیت کئی اداروں میں انتظامی افسران فیصلے کرتے ہیں۔ انتظامی افسران کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں بھی اعلی افسران ہی سنتے ہیں۔انتظامی افسران کے بعد ہائی کورٹ کے لیول پر معاملہ عدالت میں آتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ انتظامی ٹربیونل میں کسی کو سزائے موت یا قید نہیں ہوتی۔کسی بھی شہری کو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔آرمی ڈسپلن کی حد تک تو بات الگ ہے۔فوجی افسر کو سزائے موت بھی شفاف ٹرائل کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے؟فوج کے اہلکار اور افسران بھی ملک کے شہری ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔