زراعت،تعمیرات پرٹیکس:پاکستان کی آئی ایم ایف کویقین دہانی

اسلام آباد : پاکستان نے آئی ایم ایف کو زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس لگانے کا یقین دلا دیا۔ یہ بھی یقین دلایا کہ کسی کو کوئی نئی ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی۔آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات جاری کردیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر  پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے۔پاکستان نے آئی ایم ایف سے تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ رواں مالی سال پرائمری سرپلس 401 ارب روپے رکھا جائے گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بہبود کے شعبے کا فنڈز بڑھائیں گی۔ کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے گی، ڈالر کے اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا۔

پاکستان نے یقین دلایا ہے کہ سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی جائے گی، نیشنل اکاؤنٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ پاکستان کو مانیٹری پالیسی میں سختی لانا ہوگی۔اسٹینڈ بائے پروگرام پرعمل کرنا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو مانیٹری پالیسی پر خود مختار کام کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ضروری ہے۔ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے صوبوں کو سرپلس بجٹ دینا ہوگا۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کےلیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس مالی سال پیٹرولیم لیوی کی مد میں 859 ارب روپے وصول کیے جائیں گے جو اگلے سال ایک ہزار ارب اور سال 26-2025 تک پیٹرولیم لیوی کا ہدف 1134 ارب روپے تک پہنچ جائےگا۔ رواں سال نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 2116 ارب روپے وصولی کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق اس سال پاکستان کا دفاعی بجٹ 1804 ارب، اگلے مالی سال 2093 ارب ہو جائے گا۔ درآمدات پر پابندیاں ختم کی جائیں گی، کرنسی کی شرح تبادلہ کنٹرول کرنے کے لیے رسمی اور غیررسمی طریقے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔ حکومت معاہدے کے تحت نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کرے گی نہ ہی ٹیکس چھوٹ یا ٹیکس مراعات جاری کرے گی۔ سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی جائے گی، 2024 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

معاہدے کے مطابق سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری کے قانون کو فعال کیا جائے گا، نیشنل اکاؤنٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ معاہدے کے مطابق پاکستان کا کہنا ہے جنیوا کانفرنس کے بعد قرض رول اوور کروانے پر توجہ ہے۔ درامدآت پر پابندیاں پروگرام کے خاتمے تک ہٹا دی جائیں گی۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کےلیےسنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت اسٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی، ایف بی آر میں ٹیکس ریفنڈ کے مسائل کو فوری حل کرنے اور پاور  سیکٹر کے بقایاجات کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے۔

معاہدے کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح محض 2.5 فیصد ہوسکتی ہے۔ مالی سال 2024 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہوسکتی ہے جو گذشتہ سال 8.5 فیصد اور 2022 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔ مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد اور قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا۔ آئی ایم ایف نومبر2023 اور فروری 2024میں پاکستان کی معیشت کا جائزہ لے گا۔اس سے پہلے پہلے پاکستان کو کارکردگی دکھانا ضروری ہوگا۔پروگرام پر عمل درآمد کے لیے جو اضافی اقدامات لینے پڑیں وہ پاکستان اٹھانے کا پابند ہوگا۔ نئے اقدامات اٹھانے اور پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے آئی ایم ایف سے مشاورت کی جائے گی۔

معاہدے کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کو بروقت مستند ڈیٹا فراہم کرے گا۔ آئی ایم ایف پاکستان کے پروگرام پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کرتا رہےگا۔ اسٹیٹ بینک کی آڈٹ رپورٹ فراہم کرے گا۔اسٹیٹ بینک کے بیرونی آڈیٹرز کو آئی ایم ایف سے مشاورت کا اختیار دیا جائے گا۔ پاکستان نے شفافیت کی پالیسی پر کاربند رہنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ادائیگیاں نہیں روکے گا۔ تعلیم اور ہیلتھ کے شعبوں پر بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سیلز ٹیکس ریفنڈ 183 ارب اور انکم ٹیکس ریفنڈ 215 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ بجلی و گیس ٹیرف ڈیفرینشل کے باعث گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگلے تین سال میں 87 ارب 42 کروڑ ڈالر کی بیرونی مالی ضروریات کا سامنا ہے۔ اس مالی سال 28 ارب 36 کروڑ ڈالر، اگلے مالی سال 27 ارب 16 کروڑ ڈالر اور 26-2025 میں 31 ارب 89 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی ضرورت ہوگی۔رواں مالی سال ٹیکس ریونیو 11 ہزار 21 ارب تک جانے کا تخمینہ ہے جو اگلے مالی سال 13 ہزار 93 ارب روپے اورمالی سال 26-2025 میں ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 14 ہزار 738 ارب تک جانے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف تمام اقدامات کی مانیٹرنگ کرے گا۔ ڈیٹا اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، بیورو شماریات سے لیا جائے گا۔ پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔

More Stories
پاک، ایران کشیدگی: کب کیا ہوا؟