اسلام آباد : سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کے کیس میں حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں۔ ججز دستیاب نہیں۔ کچھ ججز ملک سے باہر جبکہ کچھ پہاڑوں پر چھٹیاں منا رہے ہیں۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کو لقمہ دیا تو اٹارنی جنرل نے عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشین نے کے صدر عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کررہا ہوں۔ میری پانچ معروضات ہیں۔ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کےفیصلوں کیطرف دلانا چاہتاہوں۔ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینزکا ٹرائل نہیں ہوسکتا۔جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق صرف فوجی اہلکاروں کاہوسکتاہے۔
عابد زبیری نے بتایا کہ فیصلےمیں کہاگیاآرمی ایکٹ کےتحت سویلنزکےٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکارہوگی۔ 21ویں آئینی ترمیم کیس میں قراردیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ بنیادی حقوق معطل والا قانون لاگونہیں ہوسکتا۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے قراردیا کہ فوجی عدالتیں سویلینز کے ٹرائل کی عدالتیں نہیں۔ میری درخواست میں آرٹیکل245 کےتحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ 21ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کے فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاوں پر جوڈیشل ریویوکی اجازت تھی۔بنیادی نکتہ یہ ہے جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑاجائےگا۔افواج کی تحویل میں موجود سویلینز کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
جسٹس یخیی آفریدی نے کہا آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے۔ کیاسویلنز کے فوجی ٹرائل کیلئےآئینی ترمیم ہونا ضروری ہے؟یا ملزمان کا دفاع یا افواج کیخلاف تعلق جوڑنا؟ جس پر وکیل عابد زبیری نےعدالت کو بتایا کہ پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے۔ اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سےکوئی تعلق ہے توپھرآئینی ترمیم ناگزیر ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کی پہلی ضروری ہے۔ آپ کے مطابق تعلق ہونے پربھی آئینی ترمیم کےبعد ہی ٹرائل ہوسکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ اس وقت کےہیں جب فوجی ٹرائل سے متعلق آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں سویلینزکےٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کیلئےدی گئی۔عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ اگرعام شہری ملکی دفاع کیخلاف کام کریں توپھرکیا ہوگا۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ملک کی سلامتی یادفاع کیخلاف عام شہری ملوث پائے جائیں توپھربھی آئینی ترمیم لازمی ہے۔خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کیلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کےمطابق تعلق جوڑنےاورآئینی ترمیم کےبعد ہی سویلینزکا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتاہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیرٹرائل کیا گیا تھا۔ملزمان کا فوج سےاندرونی تعلق ہو تو کیا پھرآئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کورٹ آف لاء کی آپ کی نظر میں کیا تعریف ہے؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کوفئیرٹرائل اوروکیل کا حق ملے۔سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یاسپریم کورٹ سےرجوع کرنےکااختیارہونا چاہیے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ کیاملزمان کوآئینی درخواست دائرکرنے کی اجازت ہوگی؟جس پر جسٹس یخیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہناچاہ رہے ہیں کہ سویلین کاٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟اگرسول عدالتوں میں چارج لگایاجائےتومعاملہ فوجی عدالتوں کوبھیجاجاسکتاہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بالکل ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہئے۔ معلوم نہیں گرفتارافراد پرفوجی عدالتوں میں چارج فریم ہوچکاہے یا نہیں۔جسٹس منیر اختر نے استفسار کیا کہ سویلین پراگرچارج فریم ہوجائےتوکیا فوج اس کوتحویل میں لے سکتی ہے؟کیا فوج سویلین کوتفتیش کیلئے بلاسکتی ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لیاقت حسین کیس کےمطابق افواج تحویل میں لیکرتفتیش کرسکتی ہیں لیکن ٹرائل نہیں ، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کون اورکس مرحلے پرفیصلہ کرتا ہے کہ ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا؟ جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اگرثابت ہوجائےکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ،توکیا سویلینز کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس یخیی آفریدی نے استفسار کیا کہ ملٹری لاء میں "چارج” کا لفظ کہاں دیا گیا ہے؟ چارج کا لفظ ملٹری ریجیم میں کچھ اور ہے، یہ بھی بتاناہوگا کہ ملٹری ایکٹ کےتحت چارج ابتدائی مرحلےپرلگتا ہےیاسماعت کے بعد۔سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کے دلائل مکمل ہو گئے۔ اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ کی تشکیل دینے سے متعلق اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کے سامنے اکسیویں آئینی ترمیم اور لیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا۔عدالت کے 23 جون کے حکمنامے کو پڑھوں گا۔ جسٹس یخی آفریدی نے استفسار کیا کہ رولز میں جو چارج کا لفظ ہے کیا باضابطہ فرد جرم کی بات ہے؟ رولز میں لفظ چارج سے مراد فرد جرم یا محض ابتدائی الزام ؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بریگیڈر پر ایف جی علی کیس کا حوالہ آپ نے زیادہ ریٹائرڈ آفیسر کا کیس تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں۔اس وقت چھٹیاں چل رہی ہیں،ججز دستیاب نہیں۔تین ججز کیس سننے سے معزرت کر چکے۔ کچھ ججز ملک سے باہر جبکہ کچھ پہاڑوں پر چھٹیاں منا رہے ہیں۔عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔اٹارنی جنرل نے جسٹس یحیحی آفریدی کا نوٹ پڑھا اور کہا کہ جسٹس یحیحی آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا۔جسٹس یحیحی آفریدی کے نوٹ میں دیگر بنچ ممبران کے بنچ اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ 26 جون کا حکم نامہ بھی پڑھیں۔وفاقی حکومت نے خود بنچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا۔کیا اب حکومت فل کورٹ کاکہہ سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کون فیصلہ کریگا کہ کونسے ججز دستیاب ہیں؟آپ خود مان رہے ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ بنچ اس کیس کو سن چکاہے،آپ اپنی گذارشات جاری رکھیں۔کافی حد تک موجودہ بنچ یہ کیس سن چکاہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کےلئے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کو لقمہ دیا تو اٹارنی جنرل نے عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔ بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔