اسلام آباد : سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے 21 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے احاطہ عدالت گرفتاری کیس کی تفصیلی وجوہات بتائی گئی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے علیحدہ وجوہات جاری کرنے کا نوٹ تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے احاطہ عدالت گرفتاری کیس کی تفصیلی وجوہات بتائی گئی ہیں،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی وقار اور تمام فریقین کیلئے تحفظ کے اصول سے نہیں ہٹا جا سکتا،چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالتی احاطہ سے گرفتار کیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت کے عمل کو مکمل کررہے تھے، موجودہ کیس میں عدالتی وقار تحفظ اور سائلین کے انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کو جانچا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پولیس حکام، تحقیقاتی ایجنسی مستقبل میں عدالتی احاطہ سے گرفتاری کے اقدام سے پرہیز کریں گی،عدالتی احاطہ سےگرفتاری عدالت کی عزت وتکریم اور وقار کی خلاف ورزی ہے،عدالتی احاطہ سے گرفتاری شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ چیٸرمین پی ٹی آٸی اسلام آباد ہاٸیکورٹ میں سرنڈر کر چکے تھے، چیٸرمین پی ٹی آئی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو نو مٸی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں؟ تسابق وزیراعظم نے جواب دیا وہ گرفتار تھے معلوم نہیں کہ ملک میں کیاہوا،چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کروائی کہ کبھی کارکنوں کو تشدد پرنہیں اکسایا، وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10 بنیادی حقوق انصاف تک رسائی اور فئیر ٹرائل کا حق دیتے ہیں،آئین میں دیئے گئے حقوق مقدمات کے ساتھ ساتھ ضمانت کیسز پر بھی لاگو ہوتے ہیں،آرٹیکل 9 کے تحت شخصی آزادی بھی بنیادی حق ہے، بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ عدالتوں کی بنیادی آئینی ذمہ داری اور اسکے وقار کے تحفظ سے اہم ہے،ضمانت قبل از گرفتاری میں پولیس افسران کی جانب سے رکاوٹ ڈالنا عدالتی کارروائی میں مداخلت اور رکاوٹ کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے 11 مئی کو عدالت کیس سننے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا تھا،چیئرمین پی ٹی آئی کو نو مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے موقع پر احاطہ عدالت سے رینجرز نے گرفتار کیا گیا تھا۔