ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ الیکشن کیس میں 90 روز میں الیکشن پر کسی نے اعتراض نہیں کیا بس بنچ پر اعتراض کیا گیا ،ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں ،ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے، یہ عدالت کی اخلاقی اتھارٹی ہے کہ وہ حق اور سچ کی بات کرے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے باہر نکل رہے ہیں، مقدمہ میں آئین اور قانون کی بجائے دیگر ترکیبیں استعمال کی جا رہی ہیں،ایسی ترکیبوں کا استعمال اچھی بات نہیں۔ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے، اپنے پہلے دن کے سوال پر جاوں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ اصل سوال شروع دن سے ہی یہ ہے ملٹری رولز کا 2 ڈی کس پر نفاذ ہوگا، ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ فوجی عدالتوں کیخلاف ہائیکورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جاسکتی؟ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ فوجی اہلکاروں کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا کسی کا ٹرائل شروع ہوا یا نہیں؟ مفروضے کی بات کہ ٹرائل ہوگا تو یہ ہونا چاہیۓ وہ ہونا چاہیئے، ہمارا وقت محدود ہے کل کے بعد چھٹیاں ہیں،کیس چلائیں، آپ کا کیس یہ ہونا چاہیے کہ سویلین کے حقوق سلب نہیں ہونے چاہئیں،درخواست گزار کے وکیل کو کہا کہ اس کیس کو مزید الجھاؤ کا شکار نہ کریں، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے متعلقہ بات ہی کریں، آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ ریے ہیں، اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا،175  کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے، ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں،175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کمپلکیشن کہتے ہیں، آپ گرینڈ کمپلکیشن نہ بنائیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جارہا ہے ان کی اہلیت پر کسی کو شک نہیں، ،الیکشن کیس میں 90 روز میں الیکشن پر کسی نے اعتراض نہیں کیا بس بنچ پر اعتراض کیا گیا ، ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں ،آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں ،ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے، یہ عدالت کی اخلاقی اتھارٹی ہے کہ وہ حق اور سچ کی بات کرے۔

More Stories
اگر مُجھے نہ نکالا جاتا تو آج ہر فرد کے پاس باعزت روزگار ہوتا، نواز شریف