وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے کل کی سماعت پر ڈرامائی انداز کے الفاظ استعمال ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا اگر یہ بات میں کہوں تو توہین عدالت کا مرتکب ہوجاؤں۔ مگر یہ بات سپریم کورٹ کا سینیئر ترین جج کررہا ہے۔
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ سینیئر ترین جج اور نامزد چیف جسٹس نے خلاف قانون تشکیل کردہ بینچ پر اعراض کیا۔ ان کے مطابق اس کے بعد دونوں ججز کو فوری طور پر بینچ سے نکال دیا گیا اور جلدی میں دوسرا سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ پتہ نہیں کس بات کی جلدی ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ پارلیمنٹ ایک قانون کے بارے میں سوچ رہی ہو اور آپ سٹے دے دیں، آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے لیکن جو قانون نہیں بنا اس کا اختیار نہیں۔ دو سینئیر ترین وکلا پٹیشن لائے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں اچھا کام کیا اب مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔ وہ دونوں صاحبان پہلے عمران خان کو ملے پھر چیف جسٹس کو ملے۔ کل جب قاضی فائز عیسیٰ نے انکار کیا تو ان کے منہ سے نکلا تو انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ کو پہلے کہہ تھا کہ فُل کورٹ بنا دیں، بھائی آپ کی یہ بات کہاں پر ہوئی تھی۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے لیکن اگر ان فیصلوں کے پیچھے یہ عوامل ہوں تو ان کی اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔ عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عمل نہ ہوسکا اور اب وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بار کونسلز، ایسوسی ایشنز نے فل بینچ کی استدعا کی اس پارلیمنٹ نے بھی فل بینچ کی بات کی لیکن نہیں مانا گیا۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے بھی لارجر بینچ کی ڈیمانڈ کی چیف جسٹس نے لارجر بینچ کے بجائے تین رکنی بینچ کا فیصلہ صادر کیا پھر اس فیصلے پر کیا ہوا سب نے دیکھ لیا۔ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہو سکتا تو اسے کالعدم قرار دیں اگر آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو اسے کالعدم قرار دے دیں۔ یہ اسی لیے ہے کہ کوئی دفاعی نظام پر حملہ اور ہو تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ باقاعدہ طور پر دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ انھوں نے کور کمانڈر ہاؤس میں دستاویزات اور چیزوں کو جلایا گیا۔ اس کی تحقیقات آرمی کی ٹیم ہی کرے گی،انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے۔ کیا ان لوگوں کی انسانی حقوق ہیں، جنھوں نے شہدا کے مجسموں کو توڑا، پاکستان کی دفاع پر جنھوں نے حملہ کیا ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔