سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل پر اسٹے دینے کی استدعا آج کیلئے مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ کا نو رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔
چیف جسٹس نے سات رکنی بنچ بنادیا جس نے کیس کی سماعت کی ۔عدالت نے فوری طور پر حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ ابھی کوئی عبوری حکم نہیں دیں گے،اس کیس کو سن کر جلد فیصلہ دیں گے۔
سپریم کورٹ میں نو رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، میں اس بینچ کو "بینچ” تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا لیکن پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم نو ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نےکہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟درخواست گزافر اعتزاز احسن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کیس سننے کی درخواست کی،چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں۔
نو رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رکنی نیا بینچ تشکیل دیا۔نئے بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ اس پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے۔ ہمارا موقف ہےکہ کیسز انسداد دہشتگردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہےکیا اس قانون کوکسی نے چیلنج کیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کس قانون اور بنیاد پر سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنےکی اجازت دی گئی؟ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس طرح کے ٹرائلز سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے، یہاں یہ ہوا جس نے پریس کانفرنس کی اس کو چھوڑ دیا جس نے نہیں کی اسے پکڑلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہےگا،یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، تمام گرفتار افرادکے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں۔کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی۔سردار لطیف کھوسہ نے سویلین کا ملٹری ٹرائل روکنے کیلئے حکم امتناع کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا اس پر پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے ۔ عدالت نے حکم دیا کہ 9 مئی کے بعد خواتین ، بچوں اور صحافیوں سمیت تمام گرفتاریوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں ، یہ بھی بتایا جایاکہ کتنےافراد پولیس اور کتنےفوج کی تحویل میں ہیں، صحافی قید ہیں تو رہا ہونے چاہیئیں۔
چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب ! اس وقت آفیشل میٹنگز کی جاسوسی ، تمام ٹیلی فون کنورسیشن کی نگرانی ہو رہی ہے، فلمیں بن رہی ہیں اور ریکاڈنگز ہو رہی ہیں، آئین نے جو پرائیویسی کا حق دیا ہے وہ بھی محفوظ نہیں، کیس کی سماعت جمعہ کو بھی جاری رہے گی۔