سپریم کورٹ نے سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو جمعرات کو ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اوروکیل اعتزاز احسن نے درخواستیں دائر کر رکھی ہے۔حکومت نے نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کافی عرصے کے بعد کسی لارجر بینچ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیارات کم کرنے سے متعلق جس قانون سازی کے خلاف جو آٹھ رکنی بینچ بنایا گیا تھا اس میں جسٹس قاضی فائز عیسی کو شامل نہیں کیا گیا تھا اور اس میں اکثریت جونئیر ججز کی تھی ۔جسٹس قاضی فائز عیسی 13اپریل کے بعد سپریم کورٹ کےکسی بینچ کا حصہ نہیں رہے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم ہونے والے نو رکنی بینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں،
اس سے پہلے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست دائر کردی ہے اور اس درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔ ان کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی ون اور ٹو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنھیں کالعدم قرار دیا جائے۔ سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے اور ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ کورٹ مارشل کی کاروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے اور کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہو اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔ ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا اور حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔ درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ملٹری کورٹس کی تمام کاروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔