سابق چیف جسٹس نے ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست دائر کردی ہے اور درخواست میں استدعا کی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی ون اور ٹو آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے اور ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ کورٹ مارشل کی کاروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے اور کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہو اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا اور حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہےاور کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیئے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی اور شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو جبکہ کورٹ مارشل کی صورت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔
درخواست میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ملٹری کورٹس کی تمام کاروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔ درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں اور درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں اور درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔درخواست گزار کا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں کے مشتبہ افراد کو بری کرانا نہیں اور نہ ہی درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت کرتا ہے۔
درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاعکے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

More Stories
کالا دھن کمانے والوں کے لیے بُری خبر، اسٹیٹ بینک کا نئے کرنسی نوٹ لانے کا فیصلہ