راولپنڈی : پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف الیکشن مہم چلانے کے بجائے گھر میں بیٹھ ہوئے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ سلیکٹ کیا جائے گا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران عمران خان نے کہاکہ میرے ساتھ کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا، میری ڈیل ایک ہی ہے کہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں۔نگران حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن ملے ہوئے ہیں، یہ جو مرضی کر لیں تحریک انصاف کو نہیں ہرا سکتے۔سب تحریک انصاف سے ڈرے ہوئے ہیں، میں نے الیکشن مہم شروع کرنے کا کہا تھا تو اب سنا ہے کہ دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہاکہ اب پی ٹی آئی کو جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہیں ملے گی، دفعہ 144 تو نواز شریف نے لگوائی ہوگی کیونکہ اس کے اپنے جلسوں میں تو کوئی آ نہیں رہا اور پی ٹی آئی کے نعرے لگ رہے ہیں۔سب تیار رہیں، یہ جس امیدوار کو پکڑیں گے ہم اس کی جگہ کسی اور کو کھڑا کر دیں گے، ہمارے امیدواروں کو میری تصویر لگانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حتیٰ کہ قیدی نمبر 804 لکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ وہ ہو رہا ہے جو پہلے تاریخ میں کبھی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہوا، جنہوں نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کیا سب کو سی سی ٹی وی فوٹیجز کے ذریعے پکڑا جائے۔
عمران خان نے کہاکہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز ہی غائب کر دی گئی ہیں۔ ہمارے پاس ویڈیوز ہیں جن میں یاسمین راشد کارکنان کو تلقین کر رہی ہیں کہ کور کمانڈر ہاؤس کی طرف نہیں جانا۔جیل سے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے پوسٹل بیلٹ کے انتظامات کر رہے ہیں۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے اپنی گفتگو میں کہاکہ جیل سے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے میں نے اور عمران خان نے پوسٹل بیلٹ کے لیے مقررہ وقت کے اندر درخواست دے دی ہے۔تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اگر دفعہ 144 کا نفاذ ہوا تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیسے جلسے کریں گے؟ اگر دفعہ 144 اسلحے کی نمائش پر لگائی گئی ہے تو اچھی بات ہے۔ہم عوام کی عدالت پر انحصار کرتے ہیں، تمام ترہتھکنڈوں کے باوجود لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔شفاف الیکشن کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے لیکن وہ اس میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش مثبت اقدام ہے، ایران کو بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سفارتی حل کی طرف جانا چاہیے۔