سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس

اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا وہ فیصلہ برقرار رکھا ہے جس میں الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات پارٹی آئین اور قانون کے مطابق نہ کروانے پر تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ متفقہ فیصلہ سنایا ہے۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ پانچ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔

اس سے قبل فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد تین رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ آج رات ہی سنایا جائے گا کیونکہ انتخابی شیڈول کے مطابق آج امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی آخری تاریخ تھی۔

چیف جسٹس نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنہ 2021 میں تحریک انصاف کو انٹراپارٹی انتخابات کروانے کا کہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں حکومت تھی چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا۔

مختصر فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13 سیاسی جماعتوں کے خلاف اسی تناظر میں کارروائی کی کیونکہ یہ جماعتیں بروقت انٹرپارٹی انتخابات نہیں کروا سکیں۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کے 14 ارکان نے انٹرپارٹی انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درخواستیں بھی جمع کروائی تھیں۔

اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں پی ٹی آئی نے جو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے اس کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ یہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہوں گے اور پھر انھیں پشاور کے قریبی علاقے چمکنی میں منتقل کر دیا گیا اور اس میں بھی حصہ لینے والوں کو کاغذات نامزدگی دینے سے انکار کیا گیا۔ پاکستان جمہوریت کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے اور جب جمہوری طور طریقے ختم ہوتے ہیں تو آمریت پنپتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک آنصاف نے الیکشن کمیشن کے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک ہی معاملے کو دو ہائی کورٹس میں کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں جو درخواستیں دائر کی تھیں ان کو ابھی تک واپس نہیں لیا گیا اور پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے جو درخواست دائر کی گئی اس میں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ایسا کوئی معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔اس کیس پر تین رکنی بینچ نے سنیچر کی صبح دس بجے سماعت کا آغاز کیا تھا جو متعدد مختصر وقفوں کے ساتھ شام سوا سات بجے تک جاری رہی۔ اس کے بعد عدالتی عملے کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ مختصر فیصلہ ساڑھے نو بجے تک سنا دیا جائے گا تاہم اس میں کچھ تاخیر ہوئی۔ اسی تاخیر کے باعث الیکشن کمیشن کو پانچ مرتبہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے مقررہ وقت میں اضافہ کرنا پڑا۔

تاہم بلآخر رات سوا گیارہ بجے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنانا شروع کیا اور عدالت میں موجود افراد سے تاخیر پر معذرت کی اور آگاہ کیا کہ فیصلے کو سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر جلد ہی اپ لوڈ کر دیا جائے گا۔

More Stories
کریک میرینا کرپشن سکینڈل میں ڈاکٹر شہزاد نسیم اور عمر شہزاد کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری