سپریم کورٹ کے دو ججز نے چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر انتخابات کروانے پر مجبور کیا، مولانا فضل الرحمٰن

اسلام آباد : جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود تسلیم کہا ہے کہ دونوں صوبوں میں حالات اچھے نہیں ہیں اور میں دعاگو ہوں۔سپریم کورٹ کے دو ججز نے چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا کہا۔ہم کیسے مان جائیں کے الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جب فیصلے ججز کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے دو صوبوں میں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ یہ دونوں صوبے اس وقت بدامنی کی زد میں ہیں۔ہم مسلسل یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ جہاں ہمیں الیکشن دیا جائے وہاں انتخابی ماحول بھی ضروری ہے۔ تا کہ عوام پرامن طریقے سے اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کر سکیں اور تمام امیدوارعوام کے پاس جانے کے لیے پرامن ماحول حاصل کر سکیں۔

مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ عشاء کے بعد عدالت لگ گئی اور انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ہر صورت انتخابات کروائیں۔ ان کے مطابق اگر اس انتخابی مہم میں ان کا کوئی کارکن بھی زخمی ہوا تو اس کا ذمہ دار چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف کیس سنا ہی نہیں ہے اور فیصلہ سنا دیا ہے اور اب ایسے میں ہمارا عدالت جانا بے سود ہے۔

تحریک انصاف کے امیدوارن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اصولی طور پر کسی سے بھی کاغذات نامزدگی چھیننا درست نہیں ہے۔فاٹا کے انضمام کا تجربہ بظاہر ناکام نظر آ رہا ہےبظاہر فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ ان کے مطابق ابھی تک فاٹا کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر دس فیصد بھی عمل نہیں ہو رہا ہے۔ فاٹا کا عام آدمی ابھی پریشان ہے کہ ہم فاٹا ہیں یا خیبرپختونخوا کا۔

مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ اس وقت فاٹا کو وعدے کے مطابق سالانہ سو ارب روپے دیے جا رہے ہیں نہ ہی وہاں ہمہ وقت عدالتیں بیٹھ رہی ہیں۔ نہ فاٹا کا لینڈ ریکارڈ بنایا جا سکا ہے اور نہ زمینوں کی تقسیم کا کوئی میکنزم موجود ہے۔ وہاں لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ فاٹا کے عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ امارات اسلامی افغانستان نے مجھے مذاکرات کیلئے دعوت دی ہے، وہ دو طرفہ امور پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔انتخابی امور کے بعد پہلی ترجیح افغانستان کا دورہ ہو گا۔ دورے کے دوران طالبان حکومت کے رہنماؤں سے ملاقات ہوگی۔ دونوں ممالک میں استحکام پیدا کرنا ترجیح ہوگی۔ یہ استحکام دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔

More Stories
ایشیا کپ: پی سی بی کا ہائبرڈ ماڈل منظور، شیڈول کا اعلان