پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کر دیا

پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کر دیا۔

پشاور ہائیکورٹ نے بلے کا نشان واپس لینے کی پی ٹی آئی کی درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر عدالت نے الیکشن کمشن کا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کرکے بلے کا نشان بحال کردیا ہے عدالت نے بتایا کہ الیکشن 8 فروری کو ہورہے ہیں جبکہ نشانات 13 جنوری کو الاٹ ہونے ہیں۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایک پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم رکھا جارہا ہے۔ 22 دسمبر کا آرڈر معطل کیا جاتا ہے۔ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔

دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کو تسلیم کیا، الیکشن کے انعقاد میں کوئی بے ضابطگی کا نہیں کہا،الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست جبکہ اس کے انعقاد کرنے والے پر اعتراض کیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو دلائل میں بتایا کہ اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کردیا گیا، انتخابی نشان سیاسی پارٹی کی پہچان ہوتی ہے اسکے بہت سنجیدہ ایشو ہوں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر کسی کو ایسوسی ایشن اور یونین بنانے کا حق ہے، یونین اور ایسوسی ایشن کے پاس اپنے عہدیدار منتخب کرنے کا حق ہے،سپریم کورٹ کے مطابق انتخابی نشان آرٹیکل 17 کا اہم جز ہے،الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیف الیکشن الیکشن کمشنر کو جنرل سیکرٹری نے کیسے تعینات کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کے عہدیداروں کے انتخاب پر سوال کا حق نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کرسکتا، اگر الیکشن کمیشن کو یہ اختیارات دیئے گئے تو آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیئے کہ میں نے فیصلہ نہیں پڑھا،کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ بالکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے،الیکشن کمیشن پارٹی میں تعیناتیوں پر سوال نہیں اُٹھا سکتا،الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اُٹھائے۔

تحریک انصاف کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں الیکشن کمیشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی ائی انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے پارٹی ممبر ہی نہیں اور الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کرانے کے طریقے پر فیصلے کا اختیار نہیں لہٰذا تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

تحریک انصاف نے عدالت سے سینئر ججز پر مشتمل بنچ بنانے اور درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

قبل ازیں پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے پشاور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی چیئرمین تھے اور رہیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں بھی توہین عدالت کا کیس دائر کرنے جا رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا اس کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ ہو گا۔

بابر اعوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پری پول ریگنگ ہو رہی ہے، امیدواروں سے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے۔

More Stories
امیدواروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جو انتخابی عمل میں مداخلت کی بدترین مثال ہیں، بیرسٹر گوہر علی خان