اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کو بری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد ازاں مختصر فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں کیس میں بری کر دیا۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی 11 سال قید کی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں بری کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس واپس احتساب عدالت کو بھیجنے کی استدعا مسترد کر دی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ زیر کفالت کے ایک نکتے پر صرف بات کرنا چاہتا ہوں، سٹار گواہ واجد ضیا نے اعتراف کیا تھا کہ زیر کفالت پر کوئی شواہد نہیں، امجد پرویز نے بے نامی مقدمات سے متعلق 13 عدالتی فیصلے پیش کر دیئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے نواز شریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا یا کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیر کفالت کون تھے؟ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ بے نامی کی تعریف سے متعلق مختلف عدالتی فیصلے موجود ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے، ٹرائل کورٹ نے تین چیزوں پر انحصار کیا اور پانامہ کیس میں دائر سی ایم اے کو بنیاد بنایا، تینوں سی ایم اے حسن، حسین اور مریم نواز نے جمع کرائیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی جانب سے ایک بھی سی ایم اے جمع نہیں کرائی گئی، ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں کہا یہ جمع کرائی گئی سی ایم ایز مجرمانہ مواد ہیں جب کہ ایک بھی سی ایم اے ثابت نہیں کرتی نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں۔
دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ جو سی ایم ایز دائر کی گئی تھیں ان میں کیا تھا؟ جواب میں امجد پرویز کا کہنا تھا کہ سی ایم ایزکو ریکارڈ پر رکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کے ساتھ منسلک دستاویز کو ریکارڈ پر رکھا گیا، البتہ ان سی ایم ایزمیں کہیں نہیں لکھا نواز شریف کی ملکیت تھی لکہ یہ لکھا گیا تھا کہ نوازشریف کا تعلق نہیں، خصوصی طور پر جب دونوں مقدمات کی نوعیت الگ الگ ہو۔
لیگی قائد کے وکیل کا کہنا تھا کہ حسین نواز کے انٹرویو اور ان کی قومی اسمبلی میں تقریر پر انحصار کیا گیا جب کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے، فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں، فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے، نہ کہ ملزم پر۔
امجد پرویز نےکہا کہ ملزم کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور یہی قانون اثاثوں کے مقدمات میں بھی لاگو ہوا ہے، کوئی ایسا کیس نہیں جس میں منطقی ثبوت موجود ہوئے بغیر ملزم کو سزا دی گئی، استغاثہ اس کیس میں ایک بھی ثبوت نہ لاسکا، لہٰذا بار ثبوت ملزم پر منتقل نہیں ہو سکتا، یہی میرا سارا کیس ہے جو کہ بریت کیلئے بہترین کیس ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا، کیا العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں آپ کے پاس ثبوت ہیں کہ اپیل کنندہ یعنی نواز شریف نے سرمایہ کاری کی اور اس کے کوئی ثبوت ہیں؟ جس کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ براہ راست تو ان کے پاس شواہد نہیں ہیں لیکن مختلف مالیاتی اداروں نے تصدیق کی تھی کہ نواز شریف کے مختلف بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر احتساب عدالت میں ریفرنسز دائر کیے، نیب ریفرنسز میں تفتیش کیلئے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تھی، عدالتی فیصلے کے بعد نیب نے بےنامی اثاثوں کی تفتیش کی، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں فرد جرم احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے عائد کی تھی۔
نیب وکیل نے نیب نے ریفرنس کی چارج شیٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ نیب نے اپنی تفتیش کی، اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے 3،2 طریقے ہی ہوتے ہیں، ہم نے جو شواہد اکٹھے کیے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس میں 161 کے بیانات بھی ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان معلوم ذرائع لکھے، نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، ایس ای سی پی، بینک اور ایف بی آر کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں، العزیزیہ میں پہلے بتائیں کتنے پیسے بھیجے کیسے بھیجے کب فیکٹری لگی؟
عدالت کے اس سوال کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے، پاکستان میں موجود شواہد اکٹھے کئے ہیں اور بیرون ملک شواہد کے حصول کے لیے ایم ایل اے لکھے گئے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آپ (نیب پراسیکیوٹر) یہ بتائیں وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں، جائیدادوں کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہوں گی؟ آپ بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی اور اس کا نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ثبوت میں دستاویز ان کی اپنی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس کے حوالے سے دستاویز ہے؟ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا تھا کہ جج کے حوالے سے تعصب کا معاملہ موجود ہے، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جج کی برطرفی کے بعد اس فیصلے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے اس پر کہا کہ ہم نے جج ارشد ملک سے متعلق درخواست پر گزشتہ سماعت پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا، اس پر نیب کی جانب سے یہ استدعا کی گئی کہ العزیزیہ ریفرنس کو ریمانڈ بیک کردیا جائے۔ چیف جسٹس اور نواز شریف کے وکیل کے درمیان اس دوران مکالمہ ہوا جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ نے کہا تھا کہ آپ اس درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتے۔
چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نیب وکیل کی بات درست ہے کہ سپریم کورٹ کے ارشد ملک کیس کے فیصلے میں آبزرویشنز کافی مضبوط ہیں، وہ درخواست اگر نہ بھی ہوتی، تب بھی اگر وہ فیصلہ ہمارے سامنے آجاتا تو ہم اس کو ملحوظ خاطر رکھتے، جس پر عدالت نے اس مقدمے کو دوبارہ احتساب عدالت میں بھیجنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس اپیل کو میرٹ پر سن کر فیصلہ کریں گے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حسین نواز کے پاس پیسے نہیں تھے اور نواز شریف نے کرپٹ پریکٹسز سے یہ پیسے حسین نواز کو بھیجے جس پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس کرپٹ پریکٹسز کے شواہد موجود ہیں؟جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہوا جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ سورس ڈاکیومنٹس عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہوتے۔
احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ سٹیل ملز سعودی عرب میں 2001ء میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005ء میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے، جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔
العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں 7 سال قید، 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ تقریباً پونے 4 ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد دائر کیے گئے ریفرنسز میں سے ایک ریفرنس العزیزیہ سٹیل مل کے حوالے سے بھی تھا جس میں نواز شریف کو احتساب عدالت نے سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط اور تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نے 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ پیپرز کیس میں نااہل قرار دے کر نیب کو ایون فیلڈ، العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ اسٹیل ملز سعودی عرب میں 2001 میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005 میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔
نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا کہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے، جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
العزیزیہ ریفرنس ہائیکورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے خلاف یکم جنوری 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔21 جنوری 2019 کو عدالت نے نیب اور دیگر حکام کو نوٹسز جاری کیے، 25 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر انہیں ضمانت دینے سے انکار کردیا جس پر 11 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اور 26 مارچ کو عدالت نے ان کی چھ ہفتوں کے لیے طبی ضمانت منظور کرلی جس دوران انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ تھی۔اس کے بعد اس ضمانت میں توسیع نہ ہونے پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے جہاں 20 مئی کو دائر ہونے والی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست 20 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسترد کر دی، تاہم، لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں علاج کے غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔ چار سال گزرنے کے باوجود نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔
اسلام آبا د ہائیکورٹ نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔ پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر 2020 کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ 24 جون 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔