اسلام آباد : قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل2023 منظور کر لیا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا۔بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصور ہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔
ان جرائم پر 3 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔بل کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ داخل ہوکر تلاشی لے سکتی ہیں یا طاقت کا استعمال کرسکتی ہیں، تفتیشی افسر ایف آئی اے کا آفیسر ہوگا، مذکورہ افسر کی تقرری ڈی جی ایف آئی اے کرے گا ضرورت پڑنے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جاسکے گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔رکن اسمبلی عبدالاکبر چترالی سمیت متعدد ارکان نے بل کی کاپیاں فراہم نہ کرنے اور ضمنی ایجنڈے میں اچانک یہ اہم بل لانے کو غیر قانونی قرار دے کر احتجاج بھی کیا تاہم ایوان کی کارروائی جاری رہی اور بل منظور ہو گیا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران یونی ورسٹیز کے قیام کے بلز پر حکومتی اتحادی جماعتیں الجھ پڑیں۔ڈپٹی اسپیکر کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں تنازع حل نہ ہوسکا، اسپیکر چیمبر میں ہونے والے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔