فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل : حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروادیا

اسلام آباد : وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے نو مٸی سے متعلق قاٸم خصوصی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے خلاف تمام درخواستیں خارج کرنے اور معاملہ فل کورٹ کے سامنے مقررکرنے کی استدعا کر دی۔ جواب میں موقف اپنایا گیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کہ آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سےپہلے سے موجود ہیں جنہیں آج تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ حالیہ واقعات میں شکیل افریدی اورکلبھوشن یادیو کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ غیرملکی عناصرلگاتارفوجی وقومی سلامتی کوکمزورکرنے کاکام کررہے ہیں۔ 9 مئی کے افراد کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل مناسب اوراہم اقدام ہے۔

حکومتی جواب میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 اور76 کے تحت سویلنزکوگرفتار کیا جا سکتا ہے۔ سیکشن 13 کے تحت ملزم کوبیان ریکارڈ کروانے اورشواہد پربحث کی اجازت دی جاتی ہے۔ سیکشن24 کے تحت ملزم کو اپنے دفاع کیلئے کم از کم 24 گھنٹوں کی مہلت دی جاتی ہے۔ ملزمان کو فوجی عدالت میں شامل افسران پر اعتراض کا بھی موقع دیا جاتا ہے۔اعتراض کا فیصلہ دیگرافسران کی اکثریت کرتی ہے۔

حکومت نے سپریم کورٹ سے براہِ راست کیس نہ سنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے درخواستیں خارج کردیں تو متاثرہ فریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کوسننا چاہئے۔ درخواستوں کے اندر انتہائی اہم حساس اور ملکی وقار کے معاملہ عدالت کے سامنے لایا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی واقعات میں 2 ارب 53 کروڑ روپے کا قومی املاک کو نقصان ہوا، ان میں سے 1 ارب 98 کروڑ 20 لاکھ فوجی املاک کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ منگل کومقدمہ کی سماعت کرے گا۔

More Stories
الیکشن سے متعلق معاملات سے نگران حکومت کا کوئی تعلق نہیں، مرتضیٰ سولنگی