اسلام آباد ہائیکورٹ: اعلیٰ ترین دفتر کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ آئندہ کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوگی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ ترین دفتر کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ آئندہ کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوگی، ریاست کے اداروں کو رول آف لا پر پورا یقین ہونا چاہیے۔ ریاستی ادارے عدالت کو نہیں مانتے اسی لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں۔ ایجنسیوں کے لوگوں کو پراسیکیوٹ کرنا ہوگا، ریاست کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کر دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، وزارت داخلہ، وزارت دفاع کے حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار ایمان مزاری سمیت پولیس حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کو بازیاب کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ درخواست گزار ایمان مزاری نے لاپتہ بلوچ طلبا کی فہرست فراہم کی، 9 لاپتہ بلوچ طلبا کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ 15 ابھی مسنگ ہیں۔ مسنگ بلوچ طلبا کو بازیاب کرانے کے لیے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں۔

’آپکے مطابق 15 بلوچ طلبہ لاپتہ رہ گئے ہیں‘، جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ریاست کے اداروں کو رول آف لا پر پورا یقین ہونا چاہیے، جس دن یہ سائکل الٹا چلا اس دن جبری گمشدگیاں نہیں ہوں گی۔ اعلی ترین دفتر کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی۔ ریاست نے تو سب کو ڈیل کرنا ہوتا ہے۔

’مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے ملکوں میں ہوتا ہے دیگر ملکوں میں ایسا کوئی تصور نہیں، ٹرائل 3، 3 سال چلتا ہے، ریاست پروٹیکٹ کرتی ہے اداروں کو، ریاست سب کچھ کرسکتی ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ اب کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوگی، عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے یہ بیان حلفی دیا، تو کیا وفاقی حکومت جبری گمشدگیوں میں ملوث تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے اب اور مستقبل کے لیے بیان حلفی دیا ہے۔

’حکومت کا جوڈیشل سسٹم پر اعتماد ہونا چاہیے، خود کو قانون سے بالاتر ہونے کا تصور ختم ہونا چاہیے، میرے سامنے کوئی بلوچ مسنگ ہو کہ سامنے نہیں آیا جس سے میں خود سوال کرسکوں۔ سمجھ نہیں آتی جو بازیاب ہو کر آتے ہیں ان کی ذہنی حالت کیسی ہوگی، ریاست کو ان سب چیزوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘

عدالت نے دوبارہ استفسار کیا کہ ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے، ہمارے سامنے پولیس کا ادارہ ریاست کا فرنٹ فیس ہے، جو لوگ اغوا ہوئے ہیں وہ 365 کے اندر اغوا ہوئے ہیں۔ آج آپ کچھ نہ کریں مگر وقت آئے گا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی ہوگی، ڈاکوں، چوروں، قاتلوں اور دہشت گردوں تک کے ٹرائل عدالتوں میں چل رہے ہیں، اگر بلوچستان میں غیر ریاستی عناصر کوئی ہیں بھی تو انکا ٹرائل ہونا چاہیے، ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے عدالتیں موجود ہیں، بلوچستان کے کچھ وڈیرے سردار وزارتیں تو لیتے ہیں مگر اپنے لوگوں کا کام نہیں کرسکتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بلوچستان کے اندرعدالتوں کو ایکٹو کریں، میرا نہیں خیال کہ میں یا میم ایمان مزاری دہشت گردوں کو کلین چٹ کا کہہ رہے ہیں یا کہیں گے، ریاست کا سپاہی مرتا ہے تو آپ ان کے لیے شہدا پیکج کا اعلان کرتے ہیں، جو لوگ ریاست کے لیے قربانی دیتے ہیں وہ پولیس ہو، فوج ہو یا کوئی بھی شہری ہو، حق سب کا ہے، مغرب میں تو بڑے سے بڑے قاتل کو بھی ضمانت دیتے ہیں یہاں ہم نہیں کرتے، تین تین سال تک ہم ٹرائل مکمل نہیں کرتے۔

’حکومت اور اسکے اداروں کو عدالتوں پر اعتماد کرنا ہوگا، ریاست اور اسکے ادارے رول آف لا کو نہیں مانتے اس لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں، وزیراعظم، سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ جبری گمشدگی آئندہ نہیں ہوگی، پولیس ریاست کا فرنٹ فیس ہے، دوسرے ادارے فرنٹ فیس نہیں ہیں، کیا مشکل ہے کہ پولیس ایک ضمنی لکھ کر انٹیلی جنس کے افسروں کو ملزم بنا دے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وقت آئے گا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پراسیکیوٹ ہونگے، آج آپ نہ کریں لیکن ایک وقت میں اعلیٰ ترین عہدیدار بھی پراسیکیوٹ ہونگے، دہشتگردوں کا ٹرائل بھی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں ہوتا ہے، کیا امر مانع ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کا ٹرائل بھی انہی عدالتوں میں ہو، بلوچستان میں اپنی انسداد دہشتگردی عدالتیں فعال کریں ٹرائل ہو سکتا ہے، سسٹم پر اعتماد کریں، کیا امر مانع ہے کہ دہشتگرد کا ٹرائل نہ ہو سکے اور وہ بری ہو جائے، یہ درخواست گزار بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ دہشتگردوں کو پروٹیکٹ کریں، مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ملتا ہے باقی ملکوں میں نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر تھانے پر چھاپہ ماریں اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے، میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ بازیابی کے بعد نہیں آیا جس سے میں سوال کر سکوں، جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں، انکی ہیلتھ کنڈیشن کیا ہوگی۔ بلوچستان سے اٹھ کر لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔

عدالت نے درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا کیمپ ابھی بھی جاری ہے، ایمان مزاری نے جواب دیا کہ جی وہ ابھی بھی یہیں کیمپ میں ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ پچھلے دنوں ہم نے آرڈر کیا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق ان کو احتجاج کرنے دیا جائے، ایمان مزاری نے کہا کہ ان پر پہلے واٹر کینن استعمال کی گئی، اب ان کو دوبارہ حراساں کیا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جب جبری گمشدہ کے ساتھ بلوچ لگتا ہے تو یہ معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہو جاتا ہے، اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا پاکستان اسے برداشت نہیں کر سکتا، اگر تھانے پر چھاپہ ماریں اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے، دوسری طرف انٹیلی جنس ایجنسیوں سے متعلق صورتحال بالکل مختلف ہے، ایس ایچ او آئے ہوئے ہیں کیا۔

ایس ایچ او عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ نے چیک کیا ہے جو لوگ آئے ہوئے ہیں احتجاج کر رہے ہیں، جس پر وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ 2 احتجاج ہو رہے ہیں ایک جن کے لوگ مسنگ ہیں دوسرے شہدا کے ورثا کا احتجاج ہے، جسٹس محسن نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ایک جگہ پر 2 احتجاج ہو رہے ہیں، ان شہدا کے ورثا سے بھی ملیں کہیں وہ ایک دوسرے کو نہ نقصان پہنچائیں، اٹارنی صاحب آپ اسکو دیکھیں دونوں احتجاج کرنے والوں سے ملیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ بلوچ طلبا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے، اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے، یہ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے، یاد رکھیں سب سے اعلیٰ عہدیدار کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہاں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو، ہمارے پاس بہت سے مسنگ پرسن کیس آتے ہیں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز نے پہلے بھی بندے اٹھائے، اگر ایجینسیز نے کسی کو کلئیر کردیا ہے تو اس کو اپنے پاس رکھنے کا جواز نہیں ہے۔

’پولیس بہتر کام کرتی ہے وہ 14 دن میں چالان بنا دیتے ہیں، ای چالان درست ہو یا غلط مگر پولیس پراسکیوٹ کرتی ہے، دہشتگردوں کو پراسکیوٹ کرنا ہوگا، رہا ہونے کے بعد کسی مسنگ پرسن کو نہیں دیکھا، میرے 9 سال میں صرف ایک بار ایک مسنگ پرسن سامنے آیا تھا، قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں‘۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں کب بیان حلفی جمع کروائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں جمع کروا دیں گے، آپ 2 مہینوں کا وقت مانگ رہے ہیں، یہ بہت زیادہ وقت ہے، انہیں فروری کی تاریخ دے دیں۔

بلوچ خاتون نے بھی عدالت میں موقف اختیار کیا کہ فواد حسن فواد ہمارے گھر آئے تھے، آپ ہمیں امید دے دیں ورنہ شاید ہم کبھی مڑ کر واپس نہ آئیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے پیاروں سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں مچائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ جو افراد لاپتہ ہیں چاہے 10 سال سے زائد ہوگیا انہیں بتانا پڑے گا، وہ افراد زندہ ہیں یا مر گئے بتانا پڑے گا، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن پر الزام ہے انہی سے ہم نے کہنا ہے۔

کارروائی مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کر دی گئی، اور ریمارکس دیے کہ پاکستان کی بہت بدنامی ہورہی ہے، عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کے بعد کی تاریخ رکھ لیں، عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل فرد تو فرد لوگوں سے متعلق رپورٹ دیں گے۔

More Stories
پاک، ایران کشیدگی: کب کیا ہوا؟