صدر کے عہدے کا آج آخری روز، عارف علوی ایوان صدر خالی نہیں کریں گے

بلاول خان

اسلام آباد : ڈاکٹر عارف علوی کے بطور صدر 5 سال 8 ستمبر کو پورے  ہو جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے صدر بننے والے عارف علوی نے پی ڈی ایم اتحادی حکومت کے بھی صدر رہے۔ عارف علوی  کے دور میں کئی اہم تنازعات پیدا ہوئے، ان میں جٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس، انتخابات کی تاریخ کے اعلان پر تنازع، اور  پی ڈی ایم اتحادی حکومت کے متعدد بلز پر دستخط نہ کرنا شامل ہے۔

پاکستان کے 13 ویں صدر ڈاکٹر عارف علوی  کی بطور صدر 5 سال کی مدت 8 ستمبر کو مکمل ہو جائے گی۔ ڈاکٹر عارف علوی سال 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر دوسری بار کراچی سے  رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ صدراتی انتخاب میں مولانا فضل الرحمن کیخلاف کامیابی کے بعد عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو بطور صدر مملکت حلف اٹھایا۔

صدر علوی نے اپنے دور میں چھاتی کے سرطان کی آگہی سمیت دوران ملازمت حراسگی کیسز ، بینک فراڈ کیسز سے متعلق اہم فیصلے کیے۔ عارف علوی نے ایوان صدر کو عوام کے دیکھنے کیلئے کھولا۔ عارف علوی کو بطور صدر نگران وزیر اعظم سمیت تین وزرائے اعظموں کے ساتھ کام  کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے دو مرتبہ وزراء اعظموں کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی۔ 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی تحلیل کی جسے سپریم کورٹ کے حکم پر بحال کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف کی تجویز پر عارف علوی نے 9 اگست 2023 کو قومی اسمبلی تحلیل کی۔

عارف علوی نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف سے بطور وزیر اعظم حلف نہیں لیا قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ نے شہباز شریف سے بطور وزیراعظم کا حلف لیا۔ تاہم اس کے بعد وفاقی وزراء کے حلف لیے۔

عارف علوی نے پی ڈی ایم حکومت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ متعدد بلز کو بغیر  دستخط  واپس بھیجوا دیا۔ ان میں اہم احتساب ترمیمی بل 2022، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، کوڈ اف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل، ایچ ای سی ترمیمی بل،ای وی ایم، سمندر پار پاکستانی ووٹنگ سے متعلق الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور اسلام اباد بلدیاتی بل شامل ہیں۔

صدر مملکت عارف علوی نے متنازع  بلز آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل  کے قانون بن جانے پر اس کی ذمہ داری  ایوان صدر کے عملے پر عائد کی کہ انہوں نے صدر کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور بلز اعتراض لگا کر واپس نہیں بھیجے۔ صدر نے اس تنازع پر اپنے سیکریٹری وقار احمد کو بھی فارغ کیا۔

پنجاب اور خیبر پختوانخوا اسمبلی تحلیل کے بعد گورنز کی جانب سے الیکشن کا اعلان نہ ہونے پر صدر نے دونوں صوبوں میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا، تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ اگست میں قومی اسمبلی تحلیل کے بعد عارف علوی نے اسمبلی انتخابات کی  تاریخ کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو مدعو کیا تاہم الیکشن کمیشن نے وہاں جانے سے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد  یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

عارف علوی نے پی ٹی  آئی کی حکومت میں  مستقبل کے  چیف جسٹس آف پاکستان  قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا، جسے شہباز شریف کی ایڈوائس پر واپس لیا گیا۔ عارف علوی نے جسٹی قاضی فائز عیسی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی بھی منظوری دی۔

عارف علوی نے چئیرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد   11 مئی کو شہباز شریف کو خط میں کہا کہ یقنی بنایا جائے کہ انکے آئینی حقوق پامال نہ ہوں اور ان کی  جان کو تحفظ حاصل ہو ۔  پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد ایک خط میں  صدر علوی نے شہباز شریف کو کہا کہ  وہ صوبائی حکام کو الیکشن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کریں جس  پر شہباز شریف نے سخت رد عمل دتے ہوئے اسےپی ٹی آی کی پریس ریلز قرار دیا۔

پی ٹی آئِی حکومت کے خاتمے کے بعد صدر عارف علوی نے پارٹی قیادت کے اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ روابط کے لیے پل کا  کردار بھی ادا کیا۔ نومبر 2022 میں صدر مملکت عارف علوی نے سابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھیجی گئی اہم عسکری تقرریوں سے متعلق سمری پر دستخط کردیئے، جس کے بعد جنرل عاصم منیر ملک کے 17 ویں آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بن گئے۔

More Stories
پارلیمنٹرینز اسکیموں کیلئے صرف3 ماہ میں 61 ارب26 کروڑ روپے جاری کرنے کا فیصلہ