چیف جسٹس پاکستان کے خلاف توہین آمیزپروپیگنڈا،47 صحافیوں سمیت 65افراد کو نوٹسز جاری

اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا اور ہتک آمیز مہم چلانے پر ایف آئی اے کی جانب سے سیرل الیمیڈا سمیت 47 سینئر صحافیوں اور یوٹیوبرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب تمام افراد کو 31 جنوری کو طلب کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے 47 صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس سمیت  65افراد کو نوٹسز جاری کر دئیے۔ 115  انکوائریاں باضابطہ طور پر رجسٹر ڈ کر دی گئیں۔ سماعت  کی تاریخ 30 اور 31 جنوری 2024 مقرر کی گئی ہے۔

ایف آئی اے نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا مہم کے الزام میں سینئیر صحافیوں اور ایکٹوسٹ مطیع اللہ جان، سیرل المیڈا، صابر شاکر، شاہین صہبائی، عدیل راجہ، صدیق جان، اسد طور، صدیق جان، اقرار الحسن، ملیحہ ہاشمی، جبران ناصر سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرکے طلب کیا۔

نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا تھا کہ پی ٹی اے اور مجاز ادارے کارروائی کر رہے ہیں۔ سینکڑوں اکاؤنٹس کو مانیٹر کیا گیا اوران کیخلاف کارروائی ہوگی۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی جس کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیٹی بنائی تھی اور کمیٹی کی نشاندہی پر ایف آئی اے نے نوٹس جاری کردیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ججز کو بدنام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت پی ٹی اے کو نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کی معلومات اکھٹی کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ عدلیہ مخالف نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کا اجلاس ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہوا۔
جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے کی جس میں سوشل میڈیا پر عدلیہ کو بدنام کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ حساس اداروں کے افسران نے پلان آف ایکشن سربراہ جے آئی ٹی کو پیش کردیا۔
جے آئی ٹی نے پی ٹی اے کو نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کی معلومات جمع کرنے کی ہدایت کردی جس میں کہا گیا ہے کہ مواد اپ لوڈ، شیئر اور کمنٹ کرنے والوں کی تمام تفصیلات حاصل کی جائیں۔
یاد رہے اس 6 رکنی جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ہیں اور اس میں آئی ایس آئی، آئی بی اور پی ٹی اے کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

More Stories
پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم کیوں؟