صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیئے، وفاقی کابینہ بھی تحلیل

صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔جس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔

وزیراعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری دستخط کرکے صدر کو بھیجی۔ ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 (1)کے تحت تحلیل کردی ہے۔

صدر کے دستخط کرتے ہی قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہوگئی تاہم نگران وزیراعظم کی تقرری تک شہباز شریف وزارت عظمٰی کےعہدے پر برقرار رہیں گے۔قومی اسمبلی تحلیل کے بعد آئین کےآرٹیکل224 اے کے تحت نگران وزیراعظم کا تقرر ہوگا۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کریں گے اور اسمبلی تحلیل ہونےکے بعدنگران وزیراعظم کا نام فائنل کرنےکےلیے 3 دن کا وقت ہوگا۔تین دن میں نام فائنل نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنے اپنے نام اسپیکر کی پارلیمانی کمیٹی کوبھیجیں گے اور پارلیمانی کمیٹی تین دن کے اندر نگران وزیراعظم کا نام فائنل کرے گی۔

پارلیمانی کمیٹی کے نگران وزیراعظم کا نام فائنل نہ کرنے پر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اور الیکشن کمیشن دیے گئے ناموں میں سے دو دن کے اندر نگران وزیراعظم کا اعلان کرنے کامجازہوگا۔اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن آرٹیکل224 ون کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا اور مدت پورےہونے سے قبل اسمبلی توڑے جانے پرعام انتخابات 90 روز میں کرانا ہوں گے۔ عام انتخابات کےبعدالیکشن کمیشن آئین کے تحت14دن میں نتائج کا اعلان کرنے کاپابندہوگا۔

پاکستان کی جمہوری سیاسی تاریخ میں پندرہویں قومی اسمبلی اپنی کی حوالوں سے اہمیت کی حامل رہی۔ اس اسمبلی کو ایک صدر، دو وزرائے اعظم، دو اسپیکرز اور دو ڈپٹی سپیکرز منتخب کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں چار جبکہ مسلم لیگ ن کے دور میں دو وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے۔ اس اسمبلی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹایا گیا۔

سال 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ایوان کی اکثریت کے ساتھ سامنے آئی۔ 13 اگست 2018 کو ممبران قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا جبکہ 18 اگست کو چیئرمین تحریک انصاف ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوئے اور پہلے ہی روز نو منتخب وزیراعظم نے احتساب کا نعرہ لگایا۔نئے ایوان کی شروعات حکومت اور اپوزیشن کے تناو کے باعث کچھ اچھی نہ رہی۔پی ٹی آئی حکومت کو ابتداء ہی سے داخلی اور خارجی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہوا۔

28 فروری 2019 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے ونگ کمانڈر ابھینندن کو بھارت کے حوالے کرنے کا ایوان میں اعلان کیا ۔سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کا اعلان کیا لیکن اسے عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔ عدالت کی جانب سے متعلقہ تقرری کی قانون سازی کا وقت دیا ۔آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق   واحد قانون سازی تھی جب اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل کی حمایت کی۔

چھ مارچ 2022 کو سابق وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 28 مارچ 2022 کو متحدہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کی گئی جس کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تین اپریل 2022 کو مسترد کیا۔تین اپریل 2022 کو ہی وزیراعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کی جو سات اپریل کو سپریم کورٹ نے بحال کر دی۔ نو اپریل 2022 کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اوراسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر مستعفی ہو گئے۔

اپوزیشن اتحاد نے 10 اپریل کو شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کیا۔ گیارہ اپریل 2022 کو شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے اور وزارت عظمی کا حلف اٹھایا۔ تیرہ جماعتی اتحاد کو کابینہ میں بھرپور نمائندگی دی گئی۔ گیارہ اپریل کو پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے جبکہ 14 اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کر لیے۔

اسد قیصر اور قاسم سوری کے استعفوں کے بعد اسی ایوان میں راجا پرویز اشرف اور زاہد اکرم درانی کو اسپیکر اور ڈ پٹی اسپیکر  منتخب کیا۔پی ٹی آئی کے استعفںفوں کے بعد 20 اپریل 2022 کو راجہ ریاض قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے۔  حکومتی اتحاد نے فرینڈ لی اپوزیشن کا قانون سازی میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔

پندرہویں قومی اسمبلی نے مجموعی طور پر 230 بل جبکہ اتحادی حکومت نے 80 سے زائد بل منظور کیے۔ اعلیٰ عدلیہ سے محاذ آرائی اور نیب  جیسی اہم قانون سازی پر کئی سوالات اٹھے۔

More Stories
کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکا پیپلزپارٹی کیلئے اچھا نہیں ہوگا، حافظ نعیم الرحمان